بدھ، 17 جون، 2020





Islamic Finance Education and Curricula of Deeni Madaris (Religious Seminaries): An Exploratory Study

Muhammad Asghar Shahzad

Shari'ah Academy, International Islamic University

Habib Rehman

Shari'ah Academy, International Islamic University, Islamabad

Syed Kashif Saeed

International Islamic University, Islamabad

Asim Ehsan

International Islamic University, Islamabad
Sharī‘ah governance is a unique element of Islamic financial system in which Ulama (Sharī‘ah scholars) play a fundamental role. The Madaris (religious seminaries) are the major source of the education of Ulama. This study will thoroughly analyze and compare the syllabubs of Deeni Madaris (religious seminaries) which is being taught in dars-e-nizami and Takhasus fil Fiqh/Takhasus fil Ifta (specialization in giving pronouncements) offered in different schools of thoughts regarding Islamic finance education. In the second part of this paper, a survey was conducted from the academia of the religious institutions regarding structure of syllabus being taught at their institutions. The questionnaire will also ask the respondents about status of curriculum concerning Islamic finance and efforts in inclusion of contemporary studies in the syllabus specifically Islamic finance and jurisprudence issues.

پیر، 4 نومبر، 2019



تبصرہ کتاب: مضاربت میزان شریعت میں 

Book Review: Mudarbat in the Light of Sharī‘ah


Urdu Abstract: اسلام کے اقتصادی نظام کا اساسی مقصد انسان کی فلاح و بہبود ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح مادہ پرستی اور خودغرضی پر مبنی ہے اور نہ ہی سوشل ازم کی طرح طبقاتی نزاع کا داعی ہے بلکہ یہ اسلامی معاشرے کے اندر منصفانہ تعاون پیدا کر کے معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کا ہمدرد اور مددگار بناتا ہے۔ جس سے مادی اور اخلاقی زندگی میں ہم آہنگی اور معاشی انصاف کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ انسان کا معاشی مسئلہ روئے زمین پر اس کے ظہور کے ساتھ ہی وجود میں آگیا تھا، احتیاجات اس کی فطرت کا جزو لاینفک ہیں اور ان کی تسکین کا سامان خالق نے کائنات کے شش جہت میں رکھ دیا ہے اور سنت یہ ٹھرادی کہ سعی وجہد سے ہی انسان کو ان خزانوں تک رسائی حاصل ہوگی۔ اللہ تبارک و تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں: لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ( اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)۔ تلاشِ معاش میں سرگردانی کا سبب وسائل کی کمیابی نہیں کہ یہ قطعی طور پر ایک غیر حقیقی مفروضہ ہے بلکہ یہ مشیت ایزدی کی کارفرمائی ہے۔ اس میں انسان کی آزمائش ہے کہ وسائل زیست کے حصول کی جدوجہد میں کس طرح اپنے مالک کی رضا اور ہدایت کو ملحوظ رکھ کر خوف اور غم و اندوہ سے اپنے آپ کو مامون بناتا ہے اور ابدی و دائمی راحتوں کو اپنا نصیب بناتا ہے۔
اسلامی معاشیات میں جہاں کسبِ معاش اہم ہے اسی طرح ذرائع معاش بھی نہایت اہم ہیں۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو رزق حلال کمانے کے لیےنہ صرف ذرائع کی طرف راہنمائی کی ہے بلکہ ایسے سنہری اصول دیئے ہیں جن پر چل کر وہ باعزت اور حلال رزق کما سکے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالٰی ہے : ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ الله لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ الله لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ ) ’’(اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزه چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بےشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : (فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ الله حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَةَ الله إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) (جو کچھ حلال اور پاکیزه روزی اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔)

English Abstract: "Mudarabat in the Light of Shariah" is a unique book on the subject which contains a lot of useful information about the contract. The book contains four chapters, but the authors has not focus on the modern application of the contract.
https://ssrn.com/abstract=3412035

جمعرات، 31 اکتوبر، 2019




اسلامی بینکاری و مالیات کی ترویج :پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی خدمات کا جائزہ 

Promotion of Islamic Banking & Finance: Role of Professor Dr. Mahmood Ahmed Ghazi 

Abstract

Urdu Abstract: پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی فقہی خدمات میں سے قابل ذکر کاوش غیر سودی معاشی نظام کے لیے کوشش ہے۔ پاکستانی معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنا ڈاکٹر غازی مرحوم کا خواب تھا؛ چونکہ معیشت میں بینکاری نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے لہذا اولیں ترجیح کے طور پر پاکستان میں بینکاری نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے کوششوںمیں وہ بھی شریک سفر ہوگئے۔ اس سلسلے میں آپ نے مختلف اسلامی ممالک کے معاشی نظام کا جائزہ لیا اور سفارشات مرتب کیں آپ نے اسلامی بنکاری و مالیات کے حوالے سے بحثیت سکالر، شریعہ ایڈوائزر، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، بحثیت جج خدمات سر انجام دیں۔ لہذا ضرورت محسوس کی گئی کہ جناب پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی اسلامی بینکاری و مالیات کے حوالے سے جو گراں قدر خدمات ہیں ان کو قلمبند کیا جائے۔ کیونکہ اسلامی بینکاری کے اس ارتقائی مرحلے میں آپ ؒ کی خدمات بہت اہمیت کی حامل ہیں ، اس مقالہ میں آپ کی اسلامی مالیات کے حوالے سے خدمات کا ایک جائزہ پیش کیا جائے گا۔ اس موضوع کے حوالے سے ان کی خدمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے علمی خدمات اور عملی خدمات۔ آپ کی علمی خدمات میں آپ کی تصانیف اورآپ کی خدمات پر کی گئی دیگر فاضل مصنفین کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا لیکن عملی خدمات کے حوالے سے خاظر خواہ مواد میسر نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ اداروں سے رابطہ کر کے معلومات اکٹھی کی گئیں ، جن میں بینک دولت پاکستان، تکافل پاکستان، بنک آف خیبر شامل ہیں ۔ .
English Abstract: The end of the twentieth century and the beginning of the 21st century witnessed many intellectual and academic contributions in the field of Islamic Sciences. Dr. Mahmood Ahmad Ghazi (d. 2010), a renowned scholar of Islamic law and jurisprudence, Islamic Finance played a very significant role in the process of Islamization of laws and economy in Pakistan. His contribution for Islamization of economics and financial system as an academician, Judge, member council of Islamic Ideology, member Commission for Islamization of Economy (CIE) and member Sharī’ah supervisory Board in State Bank of Pakistan, Takaful Pakistan and Bank of Khyber. The main objective of this paper is to focus on the efforts and contributions of Dr. Mahmood Ahmad Ghazi regarding Islamic Economics, Islamic Banking and finance. https://ssrn.com/abstract=3036131[1]

Rehman, Habib and Shahzad, Muhammad Asghar, اسلامی بینکاری و مالیات کی ترویج :پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی خدمات کا جائزہ (Promotion of Islamic Banking & Finance: Role of Professor Dr. Mahmood Ahmed Ghazi (R.A)) (January 14, 2017). Pakistan Journal of Islamic Research, Bahauddin Zakariya University Multan, Pakistan, Vol: 20, Issue: 2 (December 2019). Available at SSRN: https://ssrn.com/abstract=3036131 or http://dx.doi.org/10.2139/ssrn.3036131

Keywords: Islamic Banking, Justice Professor Dr. Mahmmood Ahmad Ghazi, Islamic Economics in Pakistan

Full Paper Can be download from following link: https://ssrn.com/abstract=3036131


[1] Rehman, Habib and Shahzad, Muhammad Asghar, اسلامی بینکاری و مالیات کی ترویج :پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی خدمات کا جائزہ (Promotion of Islamic Banking & Finance: Role of Professor Dr. Mahmood Ahmed Ghazi (R.A)) (January 14, 2017). Pakistan Journal of Islamic Research, Bahauddin Zakariya University Multan, Pakistan, Vol: 20, Issue: 2 (December 2019). Available at SSRN: https://ssrn.com/abstract=3036131 or http://dx.doi.org/10.2139/ssrn.3036131

جمعرات، 8 دسمبر، 2016


Role of Islamic Banks for Eradication of Unemployment

By:  Muhammad Asghar Shahzad
Email: asghar.shahzad@iiu.edu.pk


Due to increasing rate of unemployment, the Islamic Banking industry should play its role for eradication of unemployment by financing the unemployed people through different modes of financing. Here one model is proposed on Modaraba basis

As number of Universities are offering technical degree programs and every year hundreds of students graduate from Universities which also increase the rate of unemployment. The Islamic Banks can play their role to reduce unemployment through financing. 

Model: 

  1. Mr. "A" who have graduated from a University and have expertise in the field work. He want to run a business. He applies to "ABC Islamic Bank". 
  2. After evaluation of his application the Islamic Bank approve his application
  3. Mr. "A" and "ABC" Islamic Bank enters into Modaraba agreement where the Bank will be Rab al Maal and "Mr. A" will act as Modarib. 
  4. Islamic Bank will finance the business as Rab al Maal
  5. "Mr. A" will run the business through his expertise and efforts. 
  6. The profit will be distributed on agreed terms.
  7. In case of Loss which will be born by Rab al maal


Note: Islamic Banking Experts are requested to please guide me in its risk management and other important issues. Please contact me on my email ID mentioned above. 


اتوار، 10 مئی، 2015


اسلامی بنکاری : ایک تاریخی پس منظر

محمد اصغر شہزاد

بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو آج کے معاشی نظام میں اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور عصر حاضر میں جبکہ دنیا گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کرچکی ہے اس ادارہ کے بغیر بڑی بڑی تجاری منڈیاں چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ مغربی بنکوں کے وجود میں آنے کے بعد اہل اسلام نے بھی اس میدان میں کوششیں شروع کر دیں تاکہ بنکاری نظام کو شریعت کے  اصولوں پر استوار کیا جا سکے۔ اور پوری دنیا میں روایتی اور سودی بنکوں کے مقابلے میں اسلامی بنک بنائے جائیں۔ ابتدا میں انفرادی سطح پر یہ سوچ پیدا ہوئی اور بالآخر اس نے اجتماع شکل اختیار کر لی اور ایک اسلامی بنکاری نظام عملی طور پر متعارف کرادیا گیا اس نظم کے قیام کے لئے متعدد پلیٹ فارموں پر کاوشیں کی گئیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ارتقاء:
اسلامی نظام بنکاری کوئی ساٹھ ستر دہائیوں پر محیط نظام  ہے جس کا ااغاز مصر سے ۱۹۶۳ء میں میت غمر کے اسلامک بنک کے قیام کی صورت میں ہوا تھا۔ اس سے قبل اس حوالے سے چند کاوشیں اور تجربے جنوبی ہند کی مسلم ریاست حیدر آباد میں بھی ہو چکے تھے۔ حیدرآباد دکن کے اس تجربے کے بعد ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے دورانیے میں اس طرح کی ایک ہلکی سی کاوش پاکستان میں بھی ہوئی۔ جس میں شیخ احمد رشاد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۶۹ء میں ملائیشیا میں تبونگ حاجی حجاج کا انتظامی فنڈ اور بورڈ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام حجان کرام کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ بالعموم تصور پایا جاتا ہے کہ مصر کے میت غمر اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی بورڈ اسلامی بنکاری کی عملی صورت تھی، مگر اسلامی بنکاری کے قیام کی اولین عملی اور تطبیقی صورتوں میں اگر ان دو اداروں کا جائزہ لیا  جائے تو انہیں اسلامی بنکاری کی ایک ابتدائی نامکمل صورت تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان پر مکمل اسلامی بنک کا اطلاق کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں ادارے انتہائی محدود مقاصد کے لئے قائم کئے گئے تھے۔ میت غمر پراجیکٹ کا دائرہ عمل دہی کاشتکاروں اور ملائیشیا  کے تبونگ حاجی کے پیش نظر حاجیوں کو مالیاتی سہولت فراہم کرنا تھا، جو کہ مکمل بنکاری نہیں بلکہ بنکاری کی ابتدائی شکل تھی۔ بعد ازاں مصری حکومت نے ۱۹۷۱ ءمیں ایک بنک قائم کیا جسکا نام ناصر سوشل بنک تھا۔ یہ سرکاری بنک ہونے کی بناء پر وسائل میں میت غمر سے بہت بڑا منصوبہ تھا۔  ناصر سوشل بنک کے قیام کے کچھ سال بعد ۱۹۷۵ء میں  اسلامی ترقیاتی بنک کی قیام عمل میں لایا گیا اور بعد میں دوبئی اسلامی بنک قائم ہوا ۔ کویت  میں کویت فنانس ہاوس۱۹۷۷ء میں قائم ہوا۔ 

پاکستان میں اسلامی بنکاری کی ترویج  و ترقی

بلاشبہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ بات صراحت سے لکھی ہے کہ پاکستان کا کوئی قانون اسلام سے متصادم نہیں ہوگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح  ؒ  جولائی ۱۹۴۸ء نے سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر فرمایا:
’’مغربی معاشی نظریہ اور عمل کا نفاذ ہمیں ایک خوشحال معاشرہ اور قناعت پسند افراد بنانے میں کوئی مدد نہیں کرے گا۔ ہمیں ایک اسلامی معاشی نظام، جو کہ اسلامی عدل اجتماعی اور مساوات کے اصولوں کے تحت قائم ہو پر کام کرکے اپنی تقدیر خود بنانی ہوگی۔ اور دنیا کے سامنے اسے پیش کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان میں اسلامی بنکاری کے حوالے سے عملی کام سن ۱۹۷۹ء میں شروع ہوا ،   اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری  سونپی گئی کہ وہ اسلامی معیشت کے اصولوں سے ہم آہنگ ایسا قابل عمل طریقہ کار وضع کرے جس سے سودی معاشی اور مالیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔  اسلامی نظریاتی کونسل نے ماہرین معیشت اور بنکاروں کے تعاون سے ایک عبوری رپورٹ نومبر ۱۹۷۸ اور حتمی رپورٹ فروری ۱۹۸۰ء میں مکمل کی جس میں چند ترامیم کے بعد جون ۱۹۸۰ء میں کونسل نے منظور کرلیا۔ پہلی رپورٹ میں ملک کے تین مالیاتی اداروں ، ٹیشنل انویسٹمنٹ  ٹرسٹ، آسی پی میوچل فنڈ اور ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے سود کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل دارآمد  کیا گیا۔
اپریل ۱۹۷۹ء  اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے چھ ورکنگ گروپ قائم کئے تاکہ معاملہ کا جائزہ لیا جا سکے اور معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جا سکے۔ ان ورکنگ گروپوں نے دسمبر ۱۹۷۹ء میں اپنی رپورٹ پیش کیں، اس کے علاوہ پاکستان بنکنگ کونسل نے بلا سود نظام بنکاری کے نفاذ کے لئے  اعلٰی ٹاسک فورس قائم کی جس نے ۱۹۸۰ ء میں اپنی رپورٹ پیش کردی۔ ۱۹۸۰ء کے آخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ ۱۹۸۱ء سے اپنے معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہونگے۔ا سٹیٹ بنک اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بینکوں کی ۷۰۰  برانچوں  نےیکم جنوری ۱۹۸۱ء کو نفع و نقصان کی بنیاد پر کھاتے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی ۔  جون ۱۹۸۴ء کو وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ کی تقریر میں سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے  ایک  ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا۔ اس تجربے کے بعد  محسوس یہ ہوا کہ غیر سود ی بنکاری  میں سرمایہ کاری  مارک اپ کے گرد گھوم رہی تھی۔  اسلامی نظریاتی کونسل نے جو حتمی رپورٹ پیش کی اس میں مارک اپ کے علاوہ اور بھی  سرمایہ کاری کے طریقے تجویز کئے تھی لیکن ان طریقوں کی تنفیذ میں عدم دلچسپی کی وجہ سے مارک کو ہی اختیار کیا گیا جسے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء نے صرف چند عملی مشکلات کی وجہ سے وقتی طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
جون ۱۹۹۰ء میں مالی معاملات بھی شریعت کورٹ  دائرہ کار میں شامل ہوگئے  اور سود کے خلاف اپیلوں کی سماعت شروع ہو گئی۔ وفاقی شرعی عدالت نے تمام متعلقہ قوانین، تجارتی معاملات پر غور کیا اور اس کے بعد تفصیلی فیصلہ کیا کہ سود جس قسم کا بھی اور جس مقصد کے لیے بھی لیا جائے ربوٰ کے ذمرے میں آتا ہے اور اسلام کے قوانین کے مطابق مطلقاً حرام ہے۔ اس فیصلے کے رو سے حکومت پاکستان کو 30 جون 1992ء تک کا وقت دیا گیا تاکہ بنکاری نظام کو شرعی اصولوں پر استوار کرئے۔ اس کے بعد یونائیٹڈ بنک نے اپیل دائر کی جس پر سپریم کورٹ نے مجبوری کے تحت سابقہ نظام کو جاری رکھنے پر فیصلہ دیا اور 1991ء میں ایک کمیشن جس کا سربراہ سٹیٹ بنک تھا بنایا گیا جس میں ماہرین معاشیات، بنکار، ماہر قانون اور علماء کو شامل کیا گیا۔ اس کمشن کی تنظیم نو 1997ء میں کی گئی اور سینٹر راجہ ظفر الحق اس کے چئیر مین مقرر ہوئے۔  اس کمیشن نے اپنی رپورٹ اکست 1997ء میں پیش کی جس کی منظوری اور تنفیذ تاحال باقی ہے۔




پیر، 27 اپریل، 2015



POSTAL LIFE INSURANCE: A SHARIAH APPRAISAL



ABSTRACT:


     Postal Life insurance is one of the oldest insurance departments which came into existence in 1884 for the welfare of postal employees initially. This institution is a very different institution which is working under the Ministry of Finance, Government of Pakistan. All collected funds are invested by the Ministry for the development projects. Demand of Postal Life insurance is also an evidence of its importance. A huge number of People don't want to purchase policy of Postal Life Insurance due its non Shariah compliance. This paper will focus on the Shariah compliance of Life insurance introduced by Postal Life Insurance and alternative system will also be suggested.

Key Words: Postal Life Insurance, Importance, Shariah position and Alternative.



1.      INTRODUCTION:

     Mutual cooperation is the essence of man to man relationships since beginning of the human society. In modern ages society became more complex than ever before. To meet the needs of modern day needs man reshaped/came up with the concept of insurance as a substitute of the values of mutual cooperation.
     As compared to general insurance the ratio of micro insurance is low in Pakistan. In Pakistan there are only four public sector insurance companies. Among which Postal Life insurance is oldest one. Among the 59 registered insurance companies we find only one institution providing micro insurance to the general public.  In Pakistan postal Life insurance is working purely for the welfare of poor people. It was established in 1884. PLI is a sub department of Pakistan Post[2]. This department is working under the supervision of Ministry of Finance. Postal Life insurance is providing insurance facility on very low premium.

2.      POSTAL LIFE INSURANCE:

     Postal Life Insurance is a Government owned institution in Pakistan. Postal life insurance has played an important role in domestic saving and national development. Postal life insurance has also been contributing significantly towards capital formation in the country, thereby boosting the national economy. It has been playing a positive role in checking inflationary trend by mobilizing saving and placing huge funds at the disposal of the government for investment in various development schemes.
     Postal life insurance was established in 1884 for the welfare of postal employees initially. Now every Pakistani national can purchase PLI policy, as it is open to all members of the community. Postal life Insurance plays a very important role in mobilizing the community saving and channeling them for investment in schemes of national importance the small saving in the form of Life insurance premium collected regularly from many policy holders. Mostly the amount is put to work for policy holder’s amount to large seems. These sums of money and poured in to economic stream of the nation and thus flow to all parts of the country and into many forms of enterprises. As a result of these useful development schemes new industries come into being which not only helping in new avenues of employment but also tends to raise the earning capacity of our people and gradually lead to a higher standard of living. Consequently, more people get reasonable income. The cycle of the benevolent function of life insurance is complete when these people begin to save through life insurance and plough back their saving for future creative purpose. Thus postal life counteracts inflation and helps in stabilizing and building the national economy.

3.      LIFE INSURANCE POLICY IN PLI:

     Postal life insurance is offering different types of policies for the welfare of general public. One of them is life insurance (Three payment Plan Policy), which is very popular in public. In this policy Postal Life insurance pays amount in three installments. This policy can be taken for the period of 12, 15…30 years. First payment amounting 25% will be paid after completion of 1/3 period. Second payment amounting 25% will be paid after completion of 2/3 period and remaining 50% with bonus will be paid on maturity.[3] The client can get loan equal to the amount of premium collected after 2 years, e.g. client "A" purchases a life insurance policy from Postal Life insurance sum assured was 10,000 and his calculated premium was 100 per month and 1200 P.A and his duration of policy was 10 years. He will get 2500 (25% of 10000) after completion of about 3 years and 2500 (25% of 10000) after completion of 6 years (25% of 10000) and 5000 (50% of 10000) and bonus on maturity. There are some options for client to re invest and the amount which they get during the period of maturity. If they will reinvest they can get more benefits and bonus on invested amount.

4.      EFFICIENCY ANALYSIS OF POSTAL LIFE INSURANCE:
 * Rs. in Billions
Year
Number of Fresh Policies Issued
Sum Assured
Premium Income
2004-2005
28508
4448.154
185.925
2005-2006
30036
5079.9
207.481
2006-2007
29388
5124.658
210.2895
2007-2008
28606
5136.706
217.605
2008-2009
30968
5992.752
267.866
2009-2010
30643
6989.099
318.707

     





Demand of Postal Life Insurance is increasing day by day, but not according to its effectiveness. It is clear from following chart that number of policies issued by Postal Life Insurance is increasing (Annexure1-2-3). Sum assured and premium is also a substantiation of PLI's efficiency. (Insurance A. D., 2011) As its all funds are normally invested by Ministry of Finance 25 Billion are with Ministry of Finance
     A number of clients don't want to purchase policy of Postal Life Insurance due to some other issues which will be discuss later one of them is Non Shariah Compliance of Postal Life Insurance. If it is Shariah Compliant the poor people of Pakistan who don’t want to indulge in Interest can get benefit from Postal Life insurance.

5.      POSTAL LIFE INSURANCE IN THE EYES OF ISLAMIC LAW:

     According to the council of Islamic Ideology report on Islamic Insurance system Postal Life insurance is a mutual insurance on the basis of non profit and loss. Postal Life insurance has two characteristics which makes it different from other insurance business. First its operations are under the supervision of Government of Pakistan and secondly this is on mutual basis. In CII report they have mention that if an insurance company is working under the supervision of Government some prohibited elements may be acceptable. [4]

6.      SHARIAH ISSUES IN POSTAL LIFE INSURANCE:

In Insurance there are normally three elements which make it non Shariah Compliant Gharar, Qimar and Riba. All these elements are explained as follow.
GHARAR:
     Islamic law does not allow Gharar transactions in which the seller does not know what he has sold and the purchaser does not know what he has purchased. Prophet (SAAWS)[5] prohibits from Gharar contracts.  (Mansoori, 2009) In insurance Gharar exists in three forms that client doesn't know that how much he will pay, for how much period he will pay and how much we will get. It makes transaction invalid. (Usmani, 2008) For example a person purchases a life insurance policy for ten years he pays premium Rs. 100 every month. He will pay twelve hundred for a year. He will pay twelve thousand in ten years. The insurance company contracts that if insured will die the company will pay 10,000 to his family and if he will alive the company will pay twelve thousand and interest[6] after ten years it is called life insurance. As the insured can get his paid amount back the element of Qimar is missing but if the payment of deposited amount is on chance it may be called Qimar. We can say that the transaction is free from the element of Qimar but it consist the element of Gharar.
RIBA:
     Riba is strictly prohibited in Quran. Riba exists in insurance in three types, investing activities, and its two types Riba al Fadal and Riba al Nasia.
RIBA AL FADAL:
     This is a normal Question from insurance practitioners that how interest involves in insurance. Insurance companies invest in property and real estate, so how it is possible that Riba (Interest) can involve in insurance?
According to Hadith on the authority of Abu saeed khudri (RAA):
 “Who reported that the Prophet (SAAWS) Said, while exchanging Gold for Gold, Silver for Silver, Wheat for Wheat, Barley for Barley, Dates for Dates. And Salt for Salt, Do so on Mithlamm-bi-mithl (like for like and yadamm-bi-yad (hand to hand)/ on spot basis. Thus whoever gave more or demand more verily he dealt in Riba. Both the taker and giver are equal (Guilty) in this regard.
·      According to above hadith exchange of similar goods which are not equal is prohibited.
·      If we want to Exchange Similar goods we should exchange in equal quantity.
·      If the goods are not in similar type so it is up to buyer and seller, they can buy and sell.

Now we will discuss that what is the link between conventional Insurance and Riba Al Fadl? It is a sale contract (Aqd-e-Muawadaat) – there are two parties to this contract, The Insurer/Company and insured/policy-holder
There is consideration by way of PREMIUM and there is the subject matter of (insurance) contract. The type of contract that this sale agreement falls under is ‘contract of exchange’ where money (by premium) is exchanged for money (by way of claims) in case of loss. For instance, if I have insured my car has stolen, the insurance company will not buy for me a new car in its place; it will only pay me the market value for it in the same currency. Similarly, if a property is destroyed, the insurance company does not give me bricks and material for re-building it, it will pay me the “amount of loss”. Thus it is a sale contract where the same kind of species (currency) is exchanged in both the transactions.[7]
There are SIX kind of species that have been specifically mentioned by our Holy Prophet (may peace be upon him); in trading (is. effecting sale of) these, when there is also a time lag between the two transactions (like in case of payment of premium and receipt of claim), both the sides of the balance MUST be equal, otherwise an element of DIRECT RIBA is involved. Those six species are: Gold, Silver etc as mention in above hadith. In modern day currency has replaced exchange of Gold and Silver for trading.[8]
So when the policy holder faces loss he receives an amount above/Less than the paid amount. So this exchange of money which is unequal leads the transaction to Riba.
There is a question if the policy holder receives equal amount which he has paid to the company in the shape of Premium. It will be Riba or not?
Answer: It is very rare case and It will be also Riba we will not go to the amount but we will see to the contract in which the policy holder have involve.[9]


RIBA AN-NISIYAH:
Riba An-Nisiyah is the second element which involves in the conventional insurance contract and causes the prohibition of contract. Now we will see that how this type of Riba involves in insurance contract. Riba An-Nisiyah realized when delivery of one counter-value is delayed.[10] Jurists argue that in insurance contract the policy holder receives amount in the shape of compensation against the amount he has paid in the shape of Premium. So the exchange of Money them money which is similar item should be yadamm-bi-yad (hand to hand)/ on spot basis. But the policy holder receives on a specific time period or on happening of loss. So it will leads to Riba transaction

RIBA FROM INVESTING ACTIVITIES: As we have mentioned above that the conventional insurance involves basically two forms of Riba in Riba Al Fadl and Riba An-Nisiyah which is kind of  Riba Al Fadl and there is an other form which leads the insurance contract to Rabwi transaction. So in this form insurance company invests its money in securities and other interest bearing transactions. [11]
Premium is paid up-front on day one, whereas claims can occur even on the last day of the year. Till that time, the conventional insurers have that amount at their disposal which they invest and earn investment income thereon. As a matter of fact, the conventional insurance companies have huge funds at their disposal which they do invest in all forms and avenues of investment without consideration of interest or non-interest. This renders their entire investment as Haram/Prohibited.  
ELEMENT OF QIMAR / GAMBLING IN CONVENTIONAL INSURANCE:
Qimar is also prohibited in Islam like Riba and Gharar[12].There is also element of Qimar in conventional insurance. In the contracts of insurance the insured loses his premium if the event does not happen and in the other situation the company pays his several times more than what he has paid as premium. This clearly amounts to gambling as one party loses by more chance and the other gains undeservedly. [13] (Samdani D. E., Des 2007)  (Usmani, 2008) A scheme of Life Insurance in which policy holder 's entitlement for his principle premium is confirm in all situation is free from the elements of Qimar while/ and where the recovery of principle premium of is not confirm in part or as a whole the transaction is having Qimar.

7.      CONCLUSIONS AND RECOMMENDATIONS:

Postal Life insurance is one of the oldest insurance departments. As discussed above that a number of people don’t take interest in Postal life insurance due to its non Shariah compliance. In a conventional insurance normally there are three elements which make it non Shariah compliant Gharar, Riba and Qimar. But in life insurance only two elements makes it non Shariah compliant According to Council of Islamic Ideology in Government Level insurance companies Postal Life insurance is performing Shariah Compliant Business. Investment of Postal Life insurance directly goes to Ministry of Finance. Ministry of Finance invests that amount in Development projects. In Postal Life Insurance Bonuses are very high as compared to other government based insurance companies because, other companies pay high rate of commission to their agents and PLI having no agents. No Budget for Advertisement and No marketing staff. Staff having no time for clients because only one or two person is performing Postal services, saving bank services and postal insurance services that’s why they can’t give time to clients. There are not separate branches of Postal Life insurance.




REFERENCES:

1.      Al Quran
2.      AAOIFI. (2008). Shariah Standerds. Accounting and Auditing Standerds of Islamic Financial Institutions.
3.      CII. (1992). Islamic Insurance System. Islamabad: Council of Islamic Ideology Goverment of Pakistan.
4.      Insurance, P. P. (n.d.). Broushers. Postal Life Insurance . Islamabad, Pakistan: Pakistan Post Department of Postal Insurance G-8/4 Islamabad.
5.      IPS. (1997). Jadeed Iqtsadi Masail Shariat Ki nazar Main. Islamabad: Institute of Policy Studies.
6.      Mansoori, D. M. (2009). Islamic Law of Contracts and Business Transactions. Islamabad: Shariah Academy, International Islamic University, Islamabad.
7.      Post, P. (2005). A Brief Introduction:Postal Life Insurance Benefits & Advantages of Different Policies. Pakistan Post.
8.      Samdani, D. I. (2002). Takaful. Lahore: Adara Islamiyat.
9.      Samdani, D. M. (Jan 2007). Mali Muamlat Par Gharar Kay Asrat . Karachi: Adara Tul Muarif.
10.  Usmani, M. M. (2008). Islam aour Jadeed Muashi Masail. Lahore: Adara E Islamiyat.
11.  www.pakpost.gov.pk. (2011, 09 23). Retrieved 09 23, 2011, from Pakistan Post: http://www.pakpost.gov.pk/financial/pli.html,




1M Phil scholar in Islamic Banking, School of Islamic Banking and Finance, International Islamic University Islamabad
[2] www.pakpost.gov.pk. (2011, 09 23). Retrieved 09 23, 2011, from Pakistan Post: http://www.pakpost.gov.pk/financial/pli.html,

[3] Post, P. (2005). A Brief Introduction:Postal Life Insurance Benefits & Advantages of Different Policies. Pakistan Post.

[4] CII. (1992). Islamic Insurance System. Islamabad: Council of Islamic Ideology Goverment of Pakistan.
[5] عن ابي هريرة   رضي الله تعالي عنه قال : نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيع الحصاة وعن بيع الغرر

[6] Interest is unanimously prohibited
[7] Akhtar, Captain Jamil,
[8] Ibid
[9] Samdani, Dr.Ijaz Ahmed, Takaful, Adara Islamiyat, p.30
[10] Khan, Attique Zafar, Insurance form Islamic Prespective,p.7
[11] Ibid p.7
[12]  (المائدة:9)يا أيها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحون
[13] Prof. Atiquzzafar Khan, Takaful , Objectives and Methodology, p#6