اتوار، 26 اپریل، 2015

اسلامی ہاوس فنانسنگ کےمروجہ طریقے اور مشکلات  کا جائزہ  پاکستان کے تناظر میں       
محمد اصغر شہزاد
تعارف:
سائبان انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اس کی اہمیت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔
وَاذْكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِى الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُواْ ءَالآءَ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِى الاّرْضِ مُفْسِدِينَ
ترجمعہ: اور یاد کرو اللہ تبارک و تعالی نے عاد کے بعد آباد کیا ، اور تم کو زمین پر رہنے کے لیے ٹھکانہ دیا کہ نرم زمین پر محل بناتے ہو ، اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بناتے ہو، سو تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا کرو، اور زمین پر فساد مت پھلایا کرو-
اسی طرح ہمیں اس اہم ضرورت کے بارے میں حدیث مبارکۃ سے بھی حوالہ ملتا ہے۔   
وقال صلى الله عليه وسلم: ( سعادة بن آدم ثلاثة ... والمسكن الواسع) رواه ابن حبان في صحيحه
 مندرجہ بالہ آیت اور حدیث سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ گھر انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے- اس خواہش کو تعبیر میں بدلنے کے لئے انسان مختلف ذرائع کا استعمال کرتا ہے موجودہ دور میں  ایک مکان کو خریدنا یا تعمیر کرنا کافی مشکل امر ہے۔ کیونکہ ایک مکان کی تعمیر یا خریدنے کے لئے ایک بڑی رقم درکاری ہوتی ہے۔چنانچہ  اس خواب کی تعبیر کے لئے   ذاتی ذرائع کے علاوہ بنک سے رجوع کرتا  ہے۔اس  مضمون میں  اسلامی بنکوں سے ہاوس فنانسنگ کے طریقہ کار پر بحث کی جائے گی جو کہ پاکستان کے علاوہ دوسرے اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں استعمال کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ہاوس فنانسنگ کے لئےشرکۃ المتناقصہ کو استعمال کیا جاتا ہے – ملایشیہ ، برونای دارالسلام اور انڈونیشایا میں مرابحہ یا بیع بثمن العاجل کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ امریکہ، برطانیہ اور  خلیجی ممالک میں اجارہ  کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو مرابحہ اور استصناع کی بنیاد پر بھی تمویل فراہم کرتے ہیں- مندرجہ ذیل میں  ان تمام تمویل کے طریقوں کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جا ئے گا ۔ اور پاکستان میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کچھ تجاویزات دی گئی ہیں۔


اسلامی ہاوس فنانسنگ کے مروجہ طریقے:
مرابحہ:
یہ ایک ایسا عقد ہے جس میں فروخت کندہ خریدار کو  اپنی لاگت اور نفع دونوں واضح کردیتا ہے مرابحہ کے بارے میں علامہ موفق الدین ابی محمد عبداللہ بن احمد بن محمد قدامہ حنبلی مقدسی ؒ کے مطابق "مرابحہ کا معنی ہے اصل لاگت اور متعین نفع کے ساتھ فروخت کرنا اس میں ضرور ی  ہے کہ فروخت کنندہ اور مشتری کو اصل لاگت معلوم ہو، چنانچہ بچنے والہ کہے کہ اس میں میرا اصل سو ہے یا یہ مجھے ایک سو کی ملی ہے میں آپ کو دس روپے نفع لے کر اتنے میں بیچتا ہوں" اس بیع کی قسم میں فروخت کنندہ کے لیے لازم ہے کہ وہ مشتری کو لاگت اور نفع  سے متعلق بتا دے-پاکستان میں اور دوسرے ممالک میں     اس طریقہ تمویل کا استعمال اسلامی بنکوں میں بہت زیادہ ہو رہا ہے-   ہوم فنانسنگ کے لیے ملایشیہ میں اس کو  بہت زیادہ  استعمال کیا جا رہا  ہے-
عملی تطبیق:
1.      گاہک ایک گھر خریدنا چاہتا ہے اور کچھ بیعانہ  دیتا ہے۔اس عہد کے ساتھ کے بقیہ رقم  بعد میں ادا کر دوں گا۔
2.      فروخت کنندہ گھر گاہک کے حوالے کر دیتا ہے
3.      گاہک یہ گھر بنک کو  نقد  فرخت کر دیتا ہے
4.      گاہک رقم بنک سے لے کر فروخت  کنندہ یا ٹھیکیدار کو ادا کرتا ہے۔
5.      بنک  رہن /سیکیورٹی رکھنے کے بعد گھر اپنے گاہک کو مرابحہ پر فروخت کر دیتا ہے
6.      گاہک  اس گھر کی قیمت  قسطوں میں ادا کرتا ہے[1]

 بنک کے اس معاملہ کے بارے میں علماء عرب کہتے ہیں کہ اس میں اور سودی طریقہ میں کوئی فرق نہیں ہے   کچھ  محققین کہتے ہیں کہ بیع العینہ اور بیع بثمن العاجل براے ہوم فنانسنگ میں کوئی فرق نہیں ہے-جبکہ دوسری دلیل یہ ہے کہ   جب بنک بیع بثمن العاجل کے ذریعے اپنے گاہک کو تمویل فراہم کرتا ہے تو  یہ تمویل عموماّّ لمبے عرصے کے لیے ہوتی ہے جیسے 20 سال یا اس سے زیادہ چونکہ مکان کی طے شدہ قیمت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی  اور افراط زر کی وجہ سے بنک کا خاصہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس وجہ سے بیع بثمن العاجل کو ہاوس فنانسنگ کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

اجارۃ:
یہ عقد دوسرا  عقد ہے جس کو ہوم فنانسنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے- یہ عقد زیادہ تر خلیجی ممالک  ،  امریکہ اور برطانیہ کے اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشن استعمال کرتے ہیں-اجارہ کے جائز ہونے میں تمام مکاتب کا اتفاق ہے   - اجارۃ ایک ایسا عقد ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق کو اپنا کوئی اثاثہ یا چیز کا حق انتفاع با معاوضہ دے  اور اس عقد کی معیاد ختم ہونے پر اثاثہ مالک کے پاس واپس آ جاتا ہے جبکہ اجارۃ منتھیۃ بالتملیک جو کہ جدید دور کی اجتہادی تخلیق کہا جا سکتا ہے اس عقد کے زریعے معیاد ختم ہونے پر اجیر کو اثاثہ کا مالک بنا دیا جاتا ہے چاہے بیع کے ذریعے یا تحفہ کی شکل میں- اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشنز اس کو اسلامی ہوم فنانسنگ کے لیے استعمال  کر رہے  ہیں۔
عملی تطبیق:
1.      گاہک اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشن سے گھر کی  خریداری کے سلسلے میں رابطہ کرتا ہے-
2.      اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشن اپنے گاہک کے لیے گھر خرید لیتا ہے
3.      بنک وہ گھر اپنے گاہک کو کرایہ پر دے دیتا ہے
4.      گاہک اس گھر کو ایک مدت تک استعمال کرتا ہے اور  اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشن کو متعین کرایہ دیتا رہتا ہے
5.      اور ایک خاص مدت کے بعد اسلامی فنانشل انسٹی ٹیوشن وہ گھر گاہک کو  معمولی قیمت کے بدلےفروخت کر دیتا ہے یا ہبہ کر دیتا ہے-
استصناع:
یہ ایک ایسا عقد ہے جس میں کسی چیز کو تیار کرنا مقصود ہوتا ہے- جیسے مکان کی تعمیر- اس کو ہم مثال کے زریعے سمجھتے ہیں کہ اگر ایک آدمی ایک بڑھی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ مجھے ایک فلاں قسم کی میز بنا کر دو تو یہ استصناع کا عقد ہوگا-لیکن ایک بات بغور سمجھ لینی چاہیے کہ اگر تیار شدہ چیز کو خریدا جاے تو وہ بیع ہوگی استصناع ہرگز نہیں کیونکہ استصناع میں چیز کی تیاری مقصود ہے- استصناع کا استعمال ہوم فنانسنگ کے لیےبرطانیہ وغیرہ میں ہو رہا ہے- جس طرح  کہ اجارۃ میں بیان ہوا کہ گاہک بنک کے پاس جاتا ہے گھر کی سہولت لینے کے لیے تو بنک یا فنانشل انسٹی ٹیوشن  اپنے گاہک کے لیے گھر خرید لیتا ہے اور پھر اس کو اجارۃ پر دے دیتا ہے - اسی سے مشابہ استصناع میں جب گاہک بنک کے پاس ہوم فنانسنگ کی غرض سے جاتا ہے تو بنک  سے وہ کہتا ہے کہ مجھے اس قسم کا گھر  یا اس نقشہ کے مطابق گھر چاہیےتو اس بارے  میں شاہ فہد یونیورسٹی کے معروف استاددکتور صلاح فہد الشہوب    لکھتے ہیں کہ بنک براہ راست اس کے لیے گھر کی تعمیر نہیں کرتا بلکہ استصناع الموازی کا عقد کرتا ہے- ایک طرف بنک اپنے گاہک سے یہ عقد کرتا ہے کہ وہ اس کو اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق گھر بنا کر دے گا تو دوسری طرف بنک ایک معمار یا ٹھیکہ دار سے عقد استصناع کرتا ہے کہ تم میرے لیے ایک گھر تعمیر کرو گے - اور اس کا خرچہ بنک ادا کرتا ہے  جب گھر کی تعمیر مکمل ہو جاتی ہے تو بنک وہ گھر اپنے گاہک کو دے دیتا ہے اور اس سے رقم قسطوں کی شکل میں لیتا رہتا ہے- اس کو استصناع الموازی کہتے ہیں- اس میں دونوں طرف استصناع کا عقد ہوا مگر دونوں ایک دوسرے پر معلق نہیں ہونے چاہیں-

مشارکۃ المتناقصۃ :
مشارکۃ متناقصہ ایک ایسا عقد ہے جو بنیادی طور پر تین عقود کا مجموعہ ہے
1.     مشارکہ  (شرکۃ الملک)
2.     اجارہ
3.      بیع
4.        پہلے ہم مشارکۃ متناقصہ کے عقد کو بیان کرتے ہیں- یہ عقد ایسا عقد ہے  جس میں دو فریقین آپس میں شرکۃ الملک کی بنیاد پر اکٹھے ہوتےہیں اور ایک اثاثہ خریدتے ہیں- اور ایک فریق  اس اثاثے کو استعمال کرتا ہے اور دوسرے فریق کو اس کے حصے کاکرایہ دیتا ہے اور ساتھ ساتھ دوسرے فریق کا حصہ خریدتا  رہتا ہے-ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب فریق اول اپنے فریق ثانی  کے تمام حصے کا مالک بن جاتا ہے- آج کل  فنانسنگ کے لیے جدید فنانشل انسٹی ٹیوشن اس کو استعمال کرتے ہیں  ہوم فنانسنگ کے لیےاس کو مختلف ممالک کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے- پاکستان اور بحرین  وغیرہ میں ہوم فنانسنگ کے لیے اس کو ہی استعمال کیا جا رہا ہے-ایک آدمی جو گھر خریدناچاہتا ہے وہ فنانشل انسٹی ٹیوشن سے رابطہ کرتا ہے تو فنانشل انسٹی ٹیوشن  اپنے گاہک سے مل کر شرکۃ الملک کی بنیاد پرگھر خرید تا ہے- فنانشل انسٹی ٹیوشن عموما 80 فیصد اور گاہک 20 فیصد انویسٹ کرتا ہے- اب دونوں فریقین اس گھر کے مالک بن جاتے ہیں- گاہک اس گھر کو استعمال کرتا  ہے اور فنانشل انسٹی ٹیوشن کے 80 فیصد حصے کا کرایہ فنانشل انسٹی ٹیوشن کو دیتا ہے اور ساتھ ساتھ فنانشل انسٹی ٹیوشن کے حصے کو خریدتا رہتاہے- مثال کے طور  پر ماہ جنوری 2010 کی یکم تاریخ کو  شرکۃ الملک کی بنیاد پر گھر خریدا تو گاہک  80 فیصد حصہ کا کرایہ دیتا ہے اور ساتھ 10 فیصد حصہ خرید لیتا ہے- اب اگلے مہینے میں گاہک 70 فیصد حصے کا کرایہ دے گا اور پھر 10 فیصد حصہ خرید لیتا ہے- اسی طرح ایک وقت آے گا کہ گاہک پورے گھر کا مالک بن جاے گا-جس طرح کے اوپربیان کیا گیا کہ شرکۃ المتناقصہ میں تین عقود ہوتے ہیں ایک شرکۃ جب فنانشل انسٹی ٹیوشن اور گاہک آپس میں ملے 20 اور 80 فیصد کے تناسب سے اور دونوں فریقیں کی شراکت ہوگی – دوسرا اجارۃ  تو وہ ایسے کہ جب گاہک نے  گھر کرایہ پر لے لیااور بیع کا عقد اس طرح کہ جب گاہک آہستہ آہستہ گھر کے حصے خریدتا رہتا ہے- اس تمام عمل میں اجتماع العقود ہے- یہ تمام عقود ایک دوسرے پر معلق نہیں ہیں
مندرجہ بالہ میں ہم نے چار طرح سے اسلامی ہوم فنانسنگ کے طریقے بیان کیے مگر ان میں سےسکالرز کے نزدیک  بہتر  مشارکۃ متناقصہ ہی ہے- کیونکہ علماء عرب کے مطابق بیع بثمن العاجل یا مرابحہ فنانسنگ براے ہوم فنانسنگ  میں  اور سودی ہوم فنانسنگ میں کوی فرق نہیں ہے-اس کے علاوہ  ملایشیہ  میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے معروف سکالر ڈاکٹر احمد کمیل میرا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلامی  ہوم فنانسنگ کے لیے جو بہتر طریقہ ہے وہ صرف مشارکۃ متناقصہ ہی ہے- کیونکہ  مرابحہ میں ایک دفعہ رقم (لاگت اور نفع) طے ہو گیا تو  اس میں تبدیلی جایز نہیں ہے- اب ہوم فنانسنگ کے لیے کوئی ایک سال یا دو سال کے لیے تو  فنانسنگ لیتا نہیں ہے اس کے لیے تو پندرہ سے بیس سال کے لیے فنانسنگ لینی ہو تی ہے  اور اتنے لمبے عرصے کے لیےفنانسنگ  بنک اور گاہک دونوں کے لیے نقصان دہ ہے-کچھ سکالرز نے مشارکۃ متناقصہ پر بھی اعتراضات کیے ہیں ان میں  ڈاکٹر سید طاہر حجازی اور حنیف صاحب   کے مطابق مشارکۃ متناقصہ بیع بثمن العاجل کی طرح ناقابل عمل نہیں بلکہ یہ قابل عمل ہے مگر  اس کی بنکوں کے اندر جو پریکٹس ہو رہی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے- اور مشارکۃ متناقصہ کے میں جو شرح منافع رکھا جاتا ہے وہ سودی شرح رکھی جاتی ہے- کچھ سکالرز لکھتے ہیں کہ شرح منافع جو بنک لیتا ہے وہ علاقہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ شرح  سود کی بنیاد پر- کیونکہ اگرایک بندہ اسلام آباد میں ہوم فنانسنگ لے رہا ہے اور ایک آدمی لاہور میں تو ان دونوں کے کرایہ میں بہت فرق ہوگا تو بنک ان دونوں سے ایک ہی کرایہ کی رقم کیسے لے سکتا ہے؟ لیکن پھر بھی مشارکۃ متناقصہ تمام  دیگر طریقوں سے بہتر ہے- مشارکۃ متناقصہ نہ صرف اسلامی بلکہ غیر اسلامی ممالک میں بھی ہوم فنانسنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے- جیسے کہ امریکہ میں مسلمانوں نے ایک ادارہ قایم کیا ہے جسے لا ربا کہتےہیں- اس میں وہ بھی اسلامی قوانین کے مطابق گھر کی سہولت مہیا کرتے ہیں ۔
پاکستان میں اسلامی ہاوس فنانسنگ
پاکستان میں بہت سے ادارے ہاوس فنانسنگ کرتے ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی اور سودی دونوں شامل ہیں۔ مگر  ہاوس فنانسنگ کے اداروں  میں سے میزن بنک اور  ہاو س بلڈنگ فنا نس کارپوریشن کا یہاں پر ذکر کیا جائے گا۔
ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن:
ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قیام ۱۹۵۲ ء میں ہوا۔ اس ادارے کامقصد پاکستان میں کم آمد ن والے لوگوں کو گھر بنانے میں مدد کرنا۔ ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے اپنے کا م کا آغاز کراچی سے کیا بعد میں دیگر شہروں اور قصبوں تک کام  وسیع ہو  گیا۔ ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن گھرو ں کی تعمیر کے لئے فنانسنگ دینے والا پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ ہے۔  یہ ادارہ گھر خریدنے ، تعمیر کرنے، مرمت کرنے اور بیلنس ٹرانسفر کے لئے معاونت کرتا ہے۔حکومت پاکستان اور سٹیٹ بنک آف پاکستان مشترکہ طور پر اس کے  اس حصص کے مالک ہیں۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن متوسط طبقے کو گھر کی سہولت فراہم کرتا ہے اب تک ۴۵۰۰۰۰ سے زائد گھروں کی تعمیر میں فنانسنگ کر چکا ہے۔  اس وقت ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ۵۱ فیصد کسٹمر ز کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو اسلامیانے کا عمل:
۱۹۷۷ء سے قبل ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سودی طریقے سے گھروں کی تعمیر کے لئے قرضے جاری کرتی تھی۔ لیکن بعد میں حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک سود سے پاک نظام متعارف کروانے کا کہا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس حوالے سے دو رپورٹیں جمع کروائیں۔ پہلی رپورٹ میں غیر بنکاری اداروں میں تبدیلی کی تجاویزات پیش کی گئیں۔ جس میں ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن ایک تھا۔ اس کے بعد یکم جولائی ۱۹۷۹ء سے ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن نے نفع و نقصان کی بنیاد پر فنانسنگ کا آغاز کر دیا۔[2]   





ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے اسالیب تمویل:
ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن  جیسا کہ ذکر کیا گیا ۱۹۷۷ ء سے پہلے سودی طریقہ تمویل سے گھروں کے لئے فنانسنگ دیا کرتا تھے۔  لیکن ۱۹۷۷ ء کے بعد نفع و نقصان کی بنیاد پر تمویل فراہم کرنی شروع کی۔ اور اس کے بعد مندرجہ ذیل اسالیب متعارف کروائے۔


مندرجہ ذیل جدول میں ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے متعارف کردہ مختلف اسالیب تمویل کا مختصر تعارف ہے
طریقہ تمویل
دورانیہ
نمایاں خصوصیات
نفع و نقصان کی بنیاد پر
1979-1987
·         ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا اسلامی طریقہ تمویل کی طرف پہلا قدم تھا
·         شراکت کی بنیاد پر تمویل فراہم کی جاتی تھا
·         کارپوریشن  اپنے گاہک سے اصل زر وصول کیا کرتی تھی
·          ایک خاص دورانیے تک کارپوریشن اپنے گاہک سے کرایہ وصول کرتی تھی۔
سادہ سکیم[3]
1988-1990
·         سادہ سکیم میں کارپوریشن اپنے گاہک کو شراکت کی بنیاد پر تمویل فراہم کرتی تھی۔
·         اس طریقہ تمویل میں ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کرایہ کے حوالے سے شہری اور دہی علاقوں کو تقسیم کر دیا گیا ۔
·         شہر ی کرایہ میں اور دہی کرایہ میں واضح فرق تھا۔
نئی سادہ سکیم[4]
1990-2001
·         نئی سادہ سکیم میں علاقوں کی بندش ختم کر دی گئی۔
گھر آسان سکیم
2002-2008
·         گھر آسان سکیم مشارکۃ متناقصہ کی بنیاد پر شروع کی گئی۔
·         گھر کی تعمیر کے دوران پہلے ۹ مہینے مہلت  کے ہوتے ۔ اس دورانیے میں نہ کارپوریشن کرایہ وصول کرتی  اور نہ ہی کارپوریشن کا حصہ (یونٹس) خرید سکتا۔
·         اس طریقہ تمویل میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں کارپوریشن اپنے گاہک سے اسکی زمین قدر میں اضافے میں بھی شریک ہوتا۔ جس کی وجہ سے  رقم میں اضافہ ہوتا چلاجاتا۔
شاندار گھر
2003۔ حال
·         اس طریقہ تمویل کا مقصد گھر کی مرمت کے لئے تمویل فراہم کرنا تھا۔
·         شاندار گھر سکیم کی بنیادبیع  مرابحہ پر  رکھی گئی۔
گھر آسان فلیکسی
2007۔ حال
1.       گھر آسان فلیکسی میں بیشتر خصوصیات ، گھر آسان سکیم والی پائی جاتی ہیں۔ البتہ اس میں جو کارپوریشن  اپنے گاہک کی زمین کی قدر میں اضا فہ کی مد میں رقم وصول کرتی تھی وہ ختم کر دی گئی۔

میزان بنک میں ہاوس فنانسنگ:
میزان بنک پاکستان میں رجسٹرڈ ایک اسلامی مالیاتی ادارہ ہے ۔ دوسرے بہت سے اسالیب تمویل کے ساتھ ساتھ میزان بنک گھر کی تعمیر، خرید، مرمت اور بیلنس ٹرانسفر کے لئے بھی تمویل فراہم کرتا ہے۔ میزان بنک  مشارکۃ متناقصہ کی بنیاد پر گھروں کی تعمیر کے لئے فنانسنگ دیتا ہے۔  گھر کی تعمیر کے لئے میزان بنک میں تقریباً ایک سال کی مہلت ہوتی ہے جس کے دوران بنک اپنے گاہک سے کرایہ کی رقم نہیں لیتا جبکہ یونٹس خریدے جا سکتے ہیں۔ میزان بنک میں ہاوس فنانسنگ کے لئے مشارکۃ متناقصہ میں جو قسط مقرر کی جاتی ہے اس اس کا حساب مندرجہ ذیل طریقے سے کیا جاتا ہے۔
مثال:
ایک آدمی میزان بنک سے گھر کی تعمیر کے لئے’’ ایزی ہوم فنانسنگ‘‘ حاصل کرنا چاہتا ہے جس میں
مطلوبہ تمویل کی رقم:                  ۱۰۰۰۰۰۰ روپے
عرصہ:                                      ۲۰ سال
سالانہ کرایہ کا تعین:
یونٹ کی سالانہ قیمت کا تعین:
(مطلوبہ تمویل کی رقم×شرح منافع)/ ۱۰۰
مطلوبہ تمویل کی رقم / تمویل کے سال
=135300
50000
ماہانہ کرایہ :
ماہانہ یونٹ کی قیمت:
=135300/12
=11275
=50000/12
=4167
مندرجہ ذیل جدول میزان بنک کی ویب سائیٹ سے حاصل کی گئی۔
خلاصہ برائے تمویل ہاوس فنانسنگ:
لاگت
10,000,000 /-
یونٹس کی تعداد
240
مشارکۃ میں گاہک کاحصہ
9,000,000 /-
ایک یونٹ کی قیمت (سالانہ)
4,167 /-
مشارکۃ میں بنک کا حصہ
1,000,000 /-
ماہانہ ایک یونٹ کی قیمت
47 /-
منافع کی شرح
13.53 %
ابتدائی کرایہ
11,275 /-
عرصہ
20
ابتدائی قسط
15,442 /-
گاہک کا پیشہ
Salaried
Easy Home Category:
Buyer (UMI)

ادائیگی کا جدول
ماہ
کرایہ
یونٹ کی قیمت
ماہانہ قسط
بقیہ یونٹس کی قیمت
بقایا یونٹس
0
1,000,000
240
1
11,275
4,167
15,442
995,833
239
2
11,228
4,167
15,395
991,667
238
3
11,181
4,167
15,348
987,500
237
4
11,134
4,167
15,301
983,333
236
5
11,087
4,167
15,254
979,167
235
6
11,040
4,167
15,207
975,000
234
7
10,993
4,167
15,160
970,833
233
8
10,946
4,167
15,113
966,667
232
9
10,899
4,167
15,066
962,500
231
10
10,852
4,167
15,019
958,333
230
11
10,805
4,167
14,972
954,167
229
12
10,758
4,167
14,925
950,000
228
کچھ سالوں بعد
239
94
4,167
4,261
4,167
1
240
47
4,167
4,214
0
کل میزان
1,358,640
1,000,080
2,358,640
مندرجہ ذیل چارٹ میں مذکورہ گوشوارے کی تبدیلی واضح ہو رہی ہے۔ ماہانہ یونٹ کی قیمت برقرار ہے جبکہ کرایہ میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یونٹ جس کی بیع ہو رہی ہے اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آرہی۔
مندرجہ ذیل چارٹ میں بنک کی ملکت کو واضح کیا گیا ہے۔ اس چارٹ میں ہر مہینے بنک کی ملکیت میں کمی آرہی ہے جو گاہک خرید رہا ہے حتیٰ کہ گاہک کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں اسلامی ہاوس فنانسنگ کو درپیش مسائل اور ان کا حل:
پاکستان میں جس طرح آبادمی میں اضافہ ہو رہ ہے اس کے مطابق گھروں کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔اس وقت اس طلب کے  اور رسد میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سرکاری سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اس وقت ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کام کر رہی ہے۔ ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن جو کہ ملک بھر میں گھروں کی تعمیر ، مرمت، اور گھر کو خریدنے کے لئے تمویل فراہم کر رہی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اپنے مقاصد کو نہیں پہنچ سکا۔ اس کے علاوہ اگر نجی طور پر گھر کی خرید ،تعمیر اور مرمت کے لئے دیکھیں تو  پانچ اسلامی بنکوں کے علاوہ بائیس رواجی (سودی) بنک بھی اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔اس تحقیق کے خلاصے کے ساتھ چند سفارشات حسب ذیل ہیں۔
سفارشات:
1.      پاکستان میں بلا سود ہاوس فنانسنگ کا اجراء کیا جائے۔ بہت سے لوگ جو کہ گھروں کی تعمیر کے لئے فنانسنگ لینا چاہتے ہیں مگر سود کے اندیشے سے وہ بنک کا رخ نہیں کرتے۔
2.      بنکوں کی شرائط جو کہ نہایت سخت ہیں ان میں نرمی کی جائے۔ کیونکہ جب بنک اپنے گاہک کو گھر بنانے یا خریدنے کے لئے تمویل فراہم کرتا ہے تو اس سے قبل اس سے گارنٹی اور سیکورٹی طلب کرتا ہے ۔ یہ بات ہر ذی شعور کو پتہ ہے کہ اگر اس کے پاس اسقدر سیکورٹی  ہو تو وہ کیونکر بنک کے پاس تمویل کے لئے جائے گا؟
3.      بنکوں میں کرایہ کا معیار کائبور ہے ۔ اگر ایک شخص اپنا گھر اسلام آباد ، کراچی ، پشاور، کوئٹہ یا لاہور میں لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھی کائبور کی شرح لاگو ہوتی ہے جبکہ اگر ایک شخص کسی چھوٹے شہر میں تمویل کے ذریعے گھر بنانا چاہتا ہے تو اس کے لئے بھی شرح کائبور ہی ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ بنک  علاقائی تناسب سے کرایہ میں تبدیلی کرئے۔ مطلب کہ بڑے شہر میں کرایہ زیادہ ہو  اور چھوٹے شہروں میں کم۔
4.      کم آمدن والے لوگوں میں آشیانہ ہاوسنگ سکیم جیسے پراچیکٹ شروع کئے جائیں اور نہایت کم قیمت میں عوام میں تقسیم کئے جائیں۔ ملک میں بہت ساری سرکای اراضی ناکارہ پڑی ہے اس اراضی کو کام میں لا کر  وہاں ایسے پراجیکٹ شروع کئے جائیں جن میں متوسط گھرانوں کے لوگوں کے لئے سہولت ہو۔
5.      حکومت کو چاہیے کہ کنسورشیم فنانس کے ذریعے مختلف بنکوں کو اکٹھا کرئے اور آشیانہ ہاوسنگ  جیسے بڑے پراجیکٹ شروع کرئے اور ماہانہ قسطوں پر ان گھروں کو عوام میں فروخت کرئے۔

مصادر و مراجع:
 Al Quran
AAOIFI. Accounting Standards. Manama: Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions, P.O.Box 1176, Behrain, 1429H-2008.
—. Sharia’h Standerds. Accounting and Auditing Standerds of Islamic Financial Institutions., 2008.
—. Shari's Standards. Manama: Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions, P.O.Box 1176, Manama, Behrain, 1429H-2008.
Abdullah, Noor Mohammad Osmani & Md. Farukh. "MusharakahMutnaqisah Home Financing: A review of Literatures & Practices of islamic Banks in Malysia." international Review of Business Research Papers,. July 2010. Vol: 6 272-282.
Abdul-Rahman, Dr. Yahia. Islamic Home Financing in the United State. LARIBA and Mike Maguid Abdelaaty,.
Ahmed Kameel Meera & Abdul Razak. "Home Financing through the Musharakahmutnaqishah contract: some practical Issues." JKAU: Islamic Econ, Vol. 22 No. 1, 2009 AD/1430 AH: 121-143.
Ali, Hafiz Zulafqar. Dour E Hazir kay mali muamlat ka Shari Hukam. Lahore: Abu Huraira Academy, 2008.
—. Maeeshat wa TIjaraht kay Islami Ahkam. Lahore: Abu Huraira Academy, 2010.
Al-Shalhoob, Dr. Salah Fahd. "Home Financing in Islamic Law, A study of some products from housing financing and applicable to Islamic Law." Kuala lumpur. King Fahd University of Petroleum and minerals, Saudi Arabia, 2008.
Ayub, Muhammad. Islamic Banking and Finance theory and Practice. Karachi: State Bank of Pakistan, 2002.
Chaudhry, Zafar Hussain. House Building Finance Corporation Act,. Lahore: Ch. Abdul Sattar at G.F. Printing Press,, 1952.
CII. Annual Report. Islamabad: Council of Islamic Ideology, , 1978-79.
Elahi, Arif. "Housing Finance in Pakistan." The Journal NIPA Karachi, Vol-8 No. 4, 2003: 25-47.
Hanif & Hjazi . "Islamic Housing Finance: A Critical Analysis and Comparison with Conventional Mortgage." EuroJournals Publishing,, Inc. 2010: ISSN: 1450-2889 Issue 6 (2010).
Hasan, Dr. Zubair. "Islamic Finance for housing." International Conference on Islamic Business and finance ICIB-2011 (Feb 8-9-2011). Islamabad, 2011. 1-12.
Hassan, Mehboob Ul. "The Islamization of the Economy and the Development of Islamic Banking in Pakistan." Kyoto Bulletin of Islamic Area Studies (Kyoto Bulletin of Islamic Area Studies), 2007: 92-109.
Hassanuzzam, Dr. S M. "Islamisation of the Financial System in Pakistan." In Encyclopaedia of Islamic Banking & Insurance, by Institute of Islamic Banking & Insurance, 231-245. London: Institute of Islamic Banking & Insurance, 1995.
HBFC. Existing Customers. http://www.hbfc.com.pk (accessed June 10, 2011).
—. Introduction. http://www.hbfc.com.pk/company_profile.html (accessed October 26, 2011).
HBFC. Mannuals of House Building Finance Corporation. Karachi: House Building Finance Corporation, , 2001-2002.
HBFC. Master Circular - Ghar Aasan & Shandar Ghar Schemes. Karachi: House Building Finance Corporation Ver. 1.0, Pages18-35.
—. New Customers. http://www.hbfc.com.pk (accessed June 11, 2011).
IPS. Jadeed Iqtsadi Masaiel, Shariat ki Nazar Main. Islamabad: Institue of Policy Studies, 1992.
—. Jadeed Iqtsadi Masail Shariat Ki nazar Main. Islamabad: Institute of Policy Studies, 1997.
IRUM and NIDAL. "Economic Pricing Mechanisms for Islamic Financial Instruments: Ijarah Model." SABA, IRUM and ALSAYYED, NIDAL INCEIF the Global University in Islamic Finance. kuala Laumpur, 2010.
Khan, Khalid Mehmood, interview by Muhammad Asghar Shahzad. House Building Finance Corporation (01 03, 2011).
Kiyani, shazia. house financing in pakistan & united kingdom from Sharia’h perspective. Islamabad: International Islamic University, , 2010.
Limited, House Building Finance Corporation. Simplified Scheme. Scheme manual (Simplified Scheme), Karachi: HBFCL, 1987.
Mansoori, Dr. Muhammad Tahir. Islamic Law of Contracts and Business Transactions. Islamabad: Shai'ah Academy, International Islamic University,, 2005.
—. Islamic Law of Contracts and Business Transactions. Islamabad: Sharia’h Academy, International Islamic University, Islamabad, 2009.
Matthews, Issam Tlemsani and Robin. Ethical Banking Islamic House Financing in The United Kingdom: A Comparative Study. Center for International Business Policy Kingston Business School, Kingstone Hill .
Mehmood, Aurangzeb. "Islamization of Economy in Pakistan, Past Present and Future." Islamic Studies 41:4, 2002: 675-704.
Mehmood, Malik Tariq, interview by Muhammad Asghar Shahzad. Importance & Working of Postal Life Insurance (September 27, 2011).
Mohammaed, Dzuljastri Abdul Razak and Mustafa Omar. "Consumers Acceptance on Islamic Home Financing: Empirical evidence on Bai Bithaman Ajil (BBA) in Malaysia." IIUM International Accounting Conference IV (INTAV). Kuala Lumpur, 2008. 24-26.
Muhmood, Ahmad Tarmidzi Al-Muttaqi Bin. Bay Bithaman Ajil (BBA) in house Binancing As implemented by Malasian Financial insitutions: A critical Analysis of its procedures and application from the fiqh point of view. International Islamic University, Malaysia, 2007.
OIC, Fiqh Academy. "Fatawa." ISRA. http://www.isra.my/fatwas/topics/commercial-banking/financing/musharakah/item/324-al-musharakah-al-mutanaqisah-and-its-shari%E2%80%99ah-rules-resolution-no-136-15/2-2004-by-the-international-council-of-fiqh-academy.html#startOfPageId324 (accessed Oct 21, 2011).
Razak, Ahamed Kameel & Dzuljastri Abdul. Islamic Home Financing through MM & BBA contracts: A comparative Analysis. Internatioanal Islamic University, Malasia, 2005.
Saeed, Mr. Muhammad, interview by Muhammd Asghar Shahzad. Diminishing Musharakahin HBFC (07 25, 2010).
Samdani, Dr. Molana Ejaz Ahmed. Mali Muamlat Par Gharar Kay Asrat . Karachi: Adara Tul Muarif, Jan 2007.
SBP. Islamization of Financial System in Pakistan. Karachi: SBP, 2002.
—. "www.sbp.org.pk/ibd/2008/Annex-c2-1.pdf." Instructions for Sharia’h Compliance in Islamic Banking Institutions. March 25, 2008. www.sbp.org.pk (accessed Oct 22, 2011).
Shoukat, Mr. Ihtsham, interview by Muhammad Asghar Shahzad. Ghar Aasan (07 25, 2010).
Soetaman, Isyrokh Fuaidi. "Risk Management in House Financing in Islamic Financial Institutions." A thesis submitted in Partial fulfillment of the requirments of the degree of LLM Islamic Commercial law. Islamabad: Faculty of Sharia’h & Law, International Islamic University, Islamabad, 2010.
Usmani, Dr. Muhammad Imran Ashraf. MeezanBank's Guide to Islamic Banking. Karachi: DARUL-ISHAAT URDU BAZAR KARACHI-I PAKISTAN, 2002.
Usmani, Dr. Muhammad Imran Ashraf. "Shirkat O Muzarbat Asre Hazar Main (Urdu)." Karachi: Idaratul Ma'arif, 2005.
Usmani, Molana Mufti Taqi. "Islam aour Jadeed Muashi Masail." Vol:7, 305-308. Lahore: Adara E Islamiyat, 2008.
Usmani, Mufi Muhammad Taqi. Introduction to Islamic Finance. Karachi: IDARATUL MA'ARIF, KARACHI PAKISTAN, 2000.
Usmani, Mufti Muhammad Taqi. Fiqhi Muqalat (Research Papers in Islamic Law). Karachi: Maiman Islamic Publishers, 1996.
—. Islam aour Jadeed Maeeshat O TIjaraht (Urdu). Karachi: Maktba Muarif Ul Quran, 2005.
www.pakpost.gov.pk. 09 23, 2011. http://www.pakpost.gov.pk/financial/pli.html, (accessed 09 23, 2011).





[1]  Hasan, P. D. (2011). Islamic house financing: current models and a proposal from social perspective. ‏‏ http://mpra.ub.uni-muenchen.de/27919/: http://mpra.ub.uni-muenchen.de/27919/ سے

[2]Hassanuzzam, D. S. (1995). Islamisation of the Financial System in Pakistan. In I. o. Insurance, Encyclopaedia of Islamic Banking & Insurance (pp. 231-245). London: Institute of Islamic Banking & Insurance.- Usmani, M. M. (2005). Islam aour Jadeed Maeeshat O TIjaraht (Urdu). Karachi: Maktba Muarif Ul Quran. P. 156 - CII. (1978-79). Annual Report. Islamabad: Council of Islamic Ideology,P. 260-229
[3] Simplified Scheme (سادہ سکیم)
[4] New Simplified Scheme