اتوار، 26 اپریل، 2015



حرمت سود آسمانی کتابوں کی روشنی میں

محمد اصغر شہزاد[1]

تعارف:
بنی نو  انسان کی  ہدایت کے لئے اللہ تبارک و تعالٰی نے مختلف زمانوں  اور علاقوں میں انبیاء مبعوث فرمائے۔ یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا  اور قریباً ایک لاکھ اور چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے اور حضرت محمد ﷺ پر آ کر یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔  بحثیت مسلمان یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب  میں انبیائے کرام علیہ السلام برحق تھے اور ان پر کتب اور صحیفے  نازل ہوئےچہ جائے کہ بعد میں ان کتابوں میں تحریف ہوئی۔ ان تمام  ادیان میں سود کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔   سود اردو زبان کا لفظ ہے جس کو عربی میں ربٰو  کہتے ہیں۔ حرمت سود جو کہ تمام آسمانی مذاہب  میں قطعی طور پر منع ہے۔ سود ایک ایسا معاشی ناسور اور اجتماعی استحصال کی شکل ہے کہ جس سے دولت چند ہاتھوں میں رہ جاتی ہے۔ سودی نظام میں دولت کا بہاو غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس مقالے میں نہ صرف اسلام بلکہ دوسری آسمانی کتابوں میں جس طرح سود کی حرمت آئی ہے  ان کو بیان کیا جائے گا۔ اور کتاب مقدس میں اس قدر شدید مذمت کے باوجود کس طرح سے اپنی زندگی کا حصہ بنایا؟ اس مقالے کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں قرآن و سنت سے سود کی حرمت کی حرمت بیان کی جائے گی جبکہ دوسرے حصے میں اسلام سے قبل آسمانی کتابوں میں سے سود کی حرمت واضح کی جائے گی۔

حصہ اول: قرآن میں سود کی حرمت
قرآن مجید میں سود کے لیے ‘‘ربٰو کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ‘‘ رب و‘‘ ہے جس کے معنی میں زیادت , نمو, بڑہوتری , اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ ربا: بڑھا اور زیادہ ہوا۔  مولانا مودوری ؒ نے اپنی مشہور کتاب ‘‘سود ‘‘ میں اس لفظ کو سمجھانے کے لئے قرآن کریں سے کچھ آیات کے حوالے دیئے ہیں کہ لفظ ربٰو  جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی و مفہوم زیادتی کے ہیں [1] مثًلا:
اللہ تبارک و تعالی قرآن کریں میں سورۃ الحج میں فرماتے ہیں:
فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ[2]       
ترجمعہ:   جب ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور برگ و بار لانے لگی۔

قرآن کریم میں سود کی حرمت:
قرآن کریم میں پانچ جگہ پر سود کی ممانعت آئی ہے۔دین اسلام کا یہ خاصہ ہے کہ اس میں کسی چیز کو فوری طور پر منع نہیں کیا جاتا۔ جب کسی چیز سے روکنا مقصود ہوتا ہے تو پہلے اس سےکراہت ظاہر کی جاتی اور پھر آہستہ آہستہ اس چیز کے بارے میں حکم  دیا جا تا ہے اور اس چیز کو نہ چھوڑنے والوں کے لئے وعید سنائی جاتی ہے۔ اسی طرح اس معاشرتی قباحت سے معاشرے کو پاک کرنے کے لئے نہایت تدریج کے ساتھ اس کے احکام نازل ہوئے ۔مندرجہ ذیل پانچ مقامات میں پہلی وحی جو کہ ہجرت سے پانچ سال قبل نازل ہوئی ۔اس میں  اللہ تبارک و تعالٰی فرماتے ہیں :
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُضْعِفُونَ[3]
ترجمعہ:
’’ جو سُود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے ، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا ، اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کر نے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں‘‘
مندرجہ بالہ آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالٰی  سود سے بیزاری کا اظہار فرمارہے ہیں کہ اگر تم سمجھتے ہوں کہ سود سے مال میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ اللہ کے نذدیک اضافہ نہیں ہے درحقیقت ما ل میں اضافہ سود سے نہیں ہوتا۔اس کے بعد دوسری وحی جو کہ ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی مدنی دورمیں نازل ہوئی اس میں اللہ تبارک و تعالٰی یہودیوں کی مثال دے کر فرماتے ہیں۔
فَبِظُلْمٍ مِنْ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيراً (160) وَأَخْذِهِمْ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً (161) لَكِنْ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أُوْلَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْراً عَظِيماً[4]
ترجمعہ:
’’ان یہودی بن جا نے والوں کے اسی ظالمانہ رویّہ کی بنا پر، اور اس بنا پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور سُود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا،اور لوگوں کےمال ناجائز طریقوں سے کھا تے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اورجو لوگ ان میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔مگر ان میں جو لوگ پختہ علم رکھنے والے ہیں اور ایماندار ہیں وہ سب اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی۔س طرح کے ایمان لانے والے اور نماز و زکوٰة کی پابندی کرنے والے اور اللہ اور روز آخرت پر سچّا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو ہم ضرور اجر عظیم عطاء کریں گے۔‘‘
یہودی وہ قوم ہے کہ جن کی اصلاح کے لئے سب سے زیادہ انبیاء ان کے ہاں بھیجے گئے۔ یہ قوم ناحق انبیاء کرام کو قتل کرتے تھے ۔ ان  کے اعمال بد کو ذکر کرتے ہوئے مندرجہ بالہ آیت کریمہ میں فرمایا  کہ  ان (یہودیوں) کے ظلم کی وجہ سے ان پر بہت سے چیزیں حرام کر دی گئی جو کہ پہلے حلال تھیں۔ ان کے ظلم دو طرح کے ہیں ایک تو وہ سود لیتے تھے اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے تھے جبکہ دوسری طرف وہ اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالٰی یہودیوں کی مثال دے کر سمجھا رہے ہیں اور سود سے بیزاری فرما رہے ہیں ۔ غزوہ احد کے بعدسود سے متعلق تیسری وحی جو شوال ۳ ہجری میں نازل ہوئی  اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالٰی اہل ایمان سود سے بچنے کا حکم فرما رہے ہیں ۔
تیسری وحی جو کہ شوال 3 ہجری  , غزوہ احد کے بعد نازل ہوئی:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافاً مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (130) وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (131) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (132) وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ(133) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنْ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135) أُوْلَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ [5]
ترجمعہ:
’’اے لوگو جو ایما ن لائے ہو ، یہ بڑھتا اور چڑھتا سُود کھانا چھوڑ دو۔ور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے مہیا کی گئی ہے اور اللہ اور رسول کا حکم مان لو ، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کر تے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جا تا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کہ معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو۔اور وہ دیدہ ود انستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزاء ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔ تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنھوں نے﴿اللہ کے احکام و ہدایت کو ﴾جھٹلایا۔ یہ لوگوں کےلیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہو ں ان کے لیے ہدایت اور نصیحت۔‘‘
چوتھی وحی جو کہ آل عمران کی مندرجہ بالہ وحی کے تھوڑا عرصہ بعد نازل ہوئی:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (275) يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (276) [6]
ترجمعہ:
’’مگر جو لوگ سُود کھاتے ہیں ، اُن کا حال اُس شخص کاسا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چُھوکر باوٴلا کر دیا ہو۔اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:”تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے-اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سُود کا مَٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے-اور اللہ کِسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ‘‘
پانچویں  وحی جو کہ 9 یا 10 ہجری , قبل حجتہ الوداع نازل ہوئی:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ (279) وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (280) وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ[7]
ترجمعہ:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خُدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سُود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاوٴ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ  کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو ﴿اور سُود چھوڑ دو﴾تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھُلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صد قہ کردو ، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو ۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔‘‘



حصہ دوئم: کتاب مقدس میں سود کی حرمت
کتاب مقدس کے دو حصے ہیں ایک عہدنامہ قدیم اور ایک عہدنامہ جدید ، عہدنامہ قدیم کو یہودی مانتے ہیں لیکن عہد نامہ جدید اور عہدنامہ قدیم دونوں کو عیسائی مانتے ہیں۔اور شریعت موسوی (حضرت موسٰی علیہ السلام کی شریعت) جس کو یہودی تسلیم کرتے ہیں اور  عیسائی بھی اسی شریعت کو مانتے ہیں کیوں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام شریعت موسوی کی تکمیل کے لئے آئے تھے نہ کہ منسوخ کرنے کے لئے۔جیسا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا۔”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں ۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیاہوں ۔”[8]

عہد نامہ قدیم:

کتاب زبور:

‘‘وہ جو اپنا روپیہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا ایسے کام کرنے والہ کبھی جنبش نہ کھائے گا‘‘[9]

‘‘اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔ اگر تو کسی وقت اپنے ہمسایہ کے کپڑے گروی رکھ لے تو سورج کے ڈوبنے تک اس کو واپس کر دینا کیونکہ فقط وہی اس کا ایک اوڑھنا ہے۔ اس کے جسم کا وہی لباس ہے۔ پھر وہ کیا اوڑھ کر سوئے گا۔ پس جب وہ فریاد کرے گا تو میں کس کی سنوں گا کیونکہ میں مہربان ہوں‘‘[10]

کتاب استثناء:

‘‘تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے۔ تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا تاکہ خداوند تیرا خدا اس ملک میں جس پر تو قبضہ کرنے جارہا ہے تیرے سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے تجھ کو برکت دے‘‘[11]

کتاب احبار:
 ”اور اگر تیرا کوئی بھائی مفلس ہوجائے اور وہ تیرے سامنے تنگ دست ہو تو تُواسے سنبھالنا ۔وہ پردیسی اور مسافر کی طرح تیرے ساتھ رہے ۔تو اس سے سود یانفع مت لینا بلکہ اپنے خدا کاخوف رکھنا تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کر سکے ۔تو اپنا روپیہ اسے سود پر مت دینا اور اپناکھانا بھی اسے نفع کے خیال سے نہ دینا ۔”[12]

کتاب امثال:

‘‘جو ناجائز سود وصول کرکے اپنی دولت بڑھاتا ہے وہ اس کے لیے جمع کرتا ہے جو محتاجو پر رحم کرے گا۔جو شرعیت پر کان نہیں لگاتا اس کی دعائیں بھی مکروہ ہوتی ہیں۔‘‘[13]

کتاب نخمیاہ:

‘‘میں نے انہیں ملامت کی کہ تم اپنے ہی بھائیوں سے سود لیتے ہو اور ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے میں نے بہت سے لوگوں کو جمع کیا۔‘‘[14]

کتاب نخمیاہ:
‘‘اور وہ بھاری سود بھی جو تم نقدی , غلہ, نئی مے اور تیل کے سویں حصہ کے طو پر جبرا ًوصول کرتے ہو لوٹا دو۔‘‘[15]

کتاب حزقی ایل:
‘‘فرض کرو ایک راستباز شخص ہے , جو انصاف سے کام لیتا اور صحیح کام کرتا ہے۔ وہ پہاڑ پر کے صنم کدوں میں قربانی کا گوشت نہیں کھاتا نہ بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے ۔ وہ اپنے ہمسایہ کی بیوی کی بے حرمتی نہیں کرتا نہ حیض کی حالت میں بیوی کے پاس جاتا ہے۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا  بلکہ قرض کے بدلے رہن رکھی ہوئی چیز لوٹا  دیتا ہے۔ وہ ڈاکا نہیں ڈالتا بلکہ اپنی روٹی بھوکے کو دیتا ہے اور ننکے کو کپڑا پہناتا ہے۔ وہ رہن رکھ کر لین دین نہیں کرتا, نہ وہ زیادہ سود وصول کرتا ہے۔ وہ بدکاری سے دور رہتا ہے اور لوتوں کے درمیان سچائی کے ساتھ انصاف کرتا ہے ۔ وہ میرے آئین پر چلتاہے اور ایمان داری سے میری شرعیت پر عمل کرتا ہے۔ وہ شخص راستباز ہے: وہ یقاناً جئے گا‘‘[16]

کتاب حزقی ایل:
‘‘خداوند فرماتا ہے۔ فرض کرو کہ اس کے ہاں ایک تندو تیز بیٹا ہے جو خون بہاتا ہے اور ان برائیوں میں سے کچھ کرتا ہے, (حالانکہ باپ نے ان میں سے ایک بھی نہ کی) وہ پہاڑ پر کے صنم کدوں میں قربانی کا گوشت کھاتا  ہے  ۔ اپنے ہمسایہ کی بیوی کی بے حرمتی  کرتا ۔ وہ غریب اور محتاج پر ظلم ڈھاتا ہے۔ وہ ڈاکا ڈالتا ہے۔ اور رہن رکھی ہوئی چیز نہیں لوٹاتا۔ وہ بتوں کی طرف نظراٹھاتا ہے اور قابل نفرت کرام کرتا ہے۔ اور سود ر لین دین کرتا ہے اور زیادہ سود وصول کرتا ہے۔ کیا ایسا شخص زندہ رہے گا؟ وہ ہرگز زندہ نہ رہے گا کیونکہ اس نے یہ سب قابل نفرت کام کیے ہیں اس لیے وہ یقینا مارا جائے گا اور اس کا خون خود کے سر پر ہوگا۔ ‘‘[17]

کتاب حزقی ایل:
‘‘لیکن فرض کرو کہ اس کا بیٹا ہے جو اپنے باپ کو یہ سب گناہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے اور گو وہ انہیں دیکھتا ہے پھر بھی اپ ایسی حرکتیں نہیں کرتا: وہ پہاڑ کے صنم کدوں میں قربانی کا گوشت نہیں کھاتا یا بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف نگاہ نہیں کرتا۔                                                                   وہ اپنے ہمسایہ کی بیوی کی بے حرمتی نہیں کرتا۔    وہ  کسی پر ظلم نہیں کرتا, نہ قرض دینے کے لیے کسی شے کے گروی رکھنے پر  بضد رہتا ہے۔ وہ ڈاکا نہیں ڈالتا بلکہ اپنی روٹی بھوکے کو دے دیتا ہے اور ننگے کو کپڑے پہناتا ہے ۔وہ بدکاری سے دور رہتا ہے اور ناحق نفع اور زیادہ سود نہیں لیتا ۔ وہ میری شرعیت پر عمل کرتا ہے اور میرے آئین پر چلتا ہے۔ وہ اپنے باپ کے گناہ کے باعث نہیں مرے گا, وہ یقینا زندہ رہے گا‘‘[18]

کتاب حزقی ایل:
‘‘دیکھ کہ اسرائیل کے حکمرانوں میں سے جو تجھ میں ہیں ہر ایک خون بہانے کے لیے اپنے اقتدار کا ایسے استعمال کرتا ہے؟ تجھ میں انہوں نے ماں پاب کو حقیر جانا, تجھ میں انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا اور یتیموں اور بیواوں کے ساتھ برا سلوک کیا۔ تو نے میری مقدس چیزوں کو حقیر جانا اور میری سبتوںکی بے حرمتی کی۔ تجھ میں ایسے افترا پرداز لوگ ہیں جو خون بہنے پر آمادہ ہیں۔ تجھ میں وہ لوگ ہیں جو پھاڑ پر کے صنم کدوں میں کھانا کھاتے ہیں اور نہایت ہی ذلیل حرکتیں کرتے ہیں۔تجھ میں وہ ہہیں جو اپنے باپ کے بستر کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ تجھ میں وہ بھی ہیں جو ایام حیض میں عورتوں سے مباشرت کرتے ہیں اور جب کہ اس حالت میں وہ ناپاک ہوتی ہیں۔تجھ میں کسی نے اپنے ہمسایہ کی بیوی کے ساتھ بدکاری کی تو کسی نے اپی بہو کے ساتھ منہ کالا کیا تو کوئی اور اپنی بہن کی عصمت لوٹتا ہے جو خود اس کے اپنے باپ کی بیٹی ہے۔تجھ میں لوگ خون بہانے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ تو بیاج لیتا ہے اور حد سے زیادہ سود وصول کرتا ہے اور اپنے پڑوسیوں سے زیادتی کرکے ناجائز منافع کماتا ہے اور تو نے مجھے بلا دیا ہے۔ یہ خداوند خدا نے فرمایا ہے۔ تو نے جو ناجا؛ز منافع کمایا اور اپنے اندر خون بہایا اس کے لیے میں یقینا تالی بجاوں گا۔ [19]

حرمتِ سود کا یہی حکم عیسائیوں کے لیے بھی یکساں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
”یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں ۔منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیاہوں ۔”[20]
لوقا  کی  انجیل:
‘‘ اور اگر تم اسی کو قرض دیتے ہو جس سے وصول کرلینے کی امید ہے تو تمہارا کیا احسان ہے؟ کیونکہ گنہگار بھی گنہگاروں کو قرض دیتے ہیں تاکہ ان سے پورا وصول کر لیں۔ مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھوں , ان کا بھلا کرو , قرض دو اور اس کے وصل پانے کی امید نہ رکھوں, تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا تعالی کے بیٹے ٹھہروگے کیونکہ وہ ناشکروں اور شریروں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا رحیم تمہارا  باپ ہے , تم بھی رحم دل ہو۔[21]

یہود ونصاریٰ کی طرح ہندوؤں کے مذہب میں بھی سود حرام ہے جیساکہ مغل شہزادے ‘داراشکوہ’ اور معروف ہندوپنڈت کے درمیان ہونے والے مکالمے سے واضح ہے ۔داراشکوہ نے پنڈت صاحب سے پوچھا کہ کیا مسلمان پر سود کا لیناحرام اور اہل ہنود پر حلال ہے ؟تو پنڈت صاحب نے جواب دیا: اہل ہنود پر سود لیناحرام سے بھی زیادہ برا ہے ۔اس پر دارا شکوہ نے سوال کیا کہ پھر سود لیتے کیوں ہیں ؟تو پنڈت جی نے کہا کہ یہ رواج پاگیا ہے اور اس کا رواج پانا اس کے نقصان سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ہے۔[22]

بہرحال سود کی تعریف بنی اسرائیل کے نزدیک بھی وہی ہے جو اسلام میں ہے۔ تورات میں سود کے لئے جو اصطلاحات بھی استعمال ہوئی ہیں ان کا مفہوم یہ ہے: ’’ کوئی رقم، کوئی خوراک ، کوئی جنس جو ایک آدمی دوسرے کو بطور قرض دے اس شرط پر کہ قرض لینے والا ’ اصل رقم’ خوراک اور چیز کے ساتھ کچھ مزید لوٹائے۔‘‘


“Both terms denote money food or any article which a man gives on loan to his fellow man, on the condition that the letter repays something for the loan in addition to the original sum lent. The discrimination made in modern times between “usury” and interest is unknown to Jewish law. (…) All increase whether large or small is prohibited.”[23]

شریعت موسوی میں بھی سود پر سخت پابندی تھی جیسا کہ مذکورہ بالہ کتاب مقدس کی آیات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تالمود میں ربا کی درج ذیل اقسام بیان کی گئی ہیں۔
1.      مقرر اور متعین اضافہ: یعنی قرض پر ایک خاص متعین شرح سے سود یا اضافہ لینا یہ سود کی قسم شریعت موسوی میں منع ہے۔
2.      دوسری قسم غبار ربا [24]: یہ سود کی وہ قسم ہے جو براہ راست سود کی شکل نہیں ہوتی مگر اسکا ادائیگی میں کسی نہ کسی طرح سے تعلق ہوتا تھا۔اگرچہ اصل معاہدے میں اس کا ذکر نہیں ہوتا۔
آقا علیہ السلام نے بھی مذکورہ بالہ دوسری قسم کے سود کو غبار کہا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : يأتي على الناس زمان يأكلون فيه الربا " قال : قيل له : الناس كلهم ؟ قال : من لم يأكله منهم ناله من غباره[25] لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا اس میں وہ سود کھائیں گے۔ صحابہ کرام نے یہ عمومی ارشاد سن کر اپنے معاشرہ کی پاکیزگی کے پیش نظر عرض کیا ،کیا سارے کے سارے لوگ (سود خوری کریں گے)؟آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’جو سود نہ کھائے گا تو اسے سود کا غبار ہی پہنچے گا‘‘
ان کے علاوہ یہودیوں کے ہاں سود کی ایک اور قسم جسے شبہ ربا کہتے ہیں وہ بھی ممنوع تھی،  یہاں تک کہ اگر راستہ میں مقروض سے ملاقات ہو جائے تو اس سے سلام کرنا بھی جائز نہیں تھا الا یہ کہ ان کے درمیان کوئی تعلق پہلے سے ہو۔ مقروض کے حوالے سے  کافی سخت پابندیاں ہیں کہ وہ قرض دینے والے کے بچوں کو بھی نہیں پڑھا سکتا ، اور قرض دینے والے کے لئے دعا بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ قرض کو خالصتاًاللہ کے لئے ہونا چاہیے اور اس پر کسی قسم کی منفعت حاصل نہیں ہونی چاھیے۔
ان تمام قوانین کے بعد اس بات کا گمان کرنا بھی ممکن نہیں کہ یہ قوم تجارتی مقاصد کے لئے سودی کاروبار کر سکتی ہے،  انسائیکلوپیڈیا کے مصنف نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ بابل میں تو سود تجارتی مقاصد کے لئے رائج تھا مگر یہودیوں کے ہاں سود کا تصور بھی نہیں تھا۔   
یہودیوں میں سود خوری کا آغاز :
یہودیوں میں سود خوری کا آغاز قرون وسطیٰ میں خود یہودی ربیوں سے ہوا۔ ربی ایک دوسرے کو ۲۰ فیصد سود پر رقمیں دیتے لیکن چونکہ یہ ربی تاجر نہیں تھے اس لئے ان کے اس عمل کو سود نہ سمجھا گیا۔ بلکہ اسے ایک دوسرے کے امداد بوقت ضرورت سمجھا گیا۔ وہ رقوم جو صومعوں کو بطور وصیت دی جاتی تھیں یا یتیموں کے لئے جمع ہوتی تھیں یا غرباء کے لئے یا مذہبی سکولوں کے لئے جمع ہوتی تھیں ، سب سے پہلے ان رقومات کو سود پر دینے کا رواج شروع ہوا[26]۔ اسی دور میں یہ کاروبار پروان چڑھا کیونکہ اس دور میں عیسائی قوانین نافذ تھے اور ان قوانین کے مطابق کوئی یہودی زمین نہیں خرید سکتے تھے اسی طرح تجارت کے دوسرے راستے بھی بند ہوگئے اسطرح یہویوں کو سودی کاروبار میں ہی اپنی بقاء نظر آئی۔
“As All the usual avenue of commerce were closed to them, they felt complete justification in investing public funds on what was, in the strict sense, an undeniable usurious basis”[27]
۱۱۹۹ء میں ایک بنیادی تبدیلی آئی کہ پوپ الیگزنڈر سوئم نے تمام عیسائی مہاجنوں کو ہدایت کردی کہ وہ سودی کاروبار نہیں کر سکتے۔ قانون کلیسا نے یہ فیصلہ دیا کہ سودی کاروبار کتب منزل کے ذریعہ حرام کیا گیا ہے اور خلاف فطرت کاروبار ہے ۔ انہوں نے تھوڑے شرح سود اور زیادہ شرح سود میں کوئی فرق نہیں کیا ۔ اس قانون کلیسا کا اطلاق یہودیوں پر نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہودیوں نے اپنا کاروبار نہ صرف جاری رکھا بلکہ مارکیٹ میں ایک اجارہ داری حاصل ہو گئی۔  اور یہودی ساہوکاروں کو یورپ سے بے شمار مال و دولت اکٹھی کرنے کا موقعہ مل گیا۔
“As the Cannon Law did not apply to the Jews the church put no bar in the way of Jewish usurers; and kings soon found out how useful these Jews could be to the depleted exchequers of their realms. There are many instances in European history where wealth generally amassed by Jewish money lenders fell into the hands of King either during the life time of the owner or after his death. There was a process of squeezing the Jews sponge-like. Indeed, so indespensible did Jews become to the imporerished coffers of the state that many a mediaeval monarchs objected to their forced conversion to Christianity because once Christians they would come within the net of the cannon law and annexation of their money would be forbidden.”[28]
مندرجہ بالہ بحث سے اس یہ واضح ہے کہ سود تمام آسمانی کتابوں میں حرام ہے اور ان کتابوں کو ماننے والوں کے لئے قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ سود کا کاروبار کریں۔ یہودیوں کے سود خوری کی ابتدا  سے ایک نتیجہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اگر مذہبی طبقہ کی طرف سے کسی حرام شے کی ابتدا ہو تو عام عوام  کے لیے ایک دلیل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ موجودہ دور میں اسلامی بنکاری کی شکل میں سودی بنکاری کا متباد ل نظام متعارف کروایا گیا ہے جس میں علماء کرام سرپرستی کرتے ہیں اور ان کے لئے  ضروری ہے کہ اسلامی بنکاری کی پراڈکٹس اور دیگر سرمایہ کاری کے طریقے متعارف کرواتے ہوئے  نہایت احتیاط سے کام لیں وگرنہ اس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں۔ 
مصادر و مآخذ:



[1]  لیکچرار  شعبہ تربیت ۔شریعہ اکیڈمی، بین الاقو امی اسلامی یونیورسٹی، فیصل مسجد کیمپس۔ اسلام آباد        asghar.shahzad@iiu.edu.pk




[1]  سید ابو الاعلیٰ مودودی, ‘‘سود‘‘ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ, لاہور پاکستان, 2008
[2] سورۃ الحج:  05
[3] سورۃ الروم: 39
[4] سورۃ النساء: 160 تا 162
[5] سورۃ آل عمران: 130 تا 136
[6] سورۃ البقرہ: ۲۷۵ تا ۲۷۶
[7] سورۃ البقرہ: 278 تا281
[8] انجیل متی ،۵: ۱۷
[9] کتاب زبور: باب15:آیات5
[10] کتاب خروج: باب 22  آیات  25تا 27
[11] کتاب استثناء: باب23:آیات 20
[12] احبار :باب ۲۵:۵۳ تا ۳۷
[13] کتاب امثال: باب 28 :آیات9 تا 10
[14] کتاب نخمیاہ: باب05:آیات07 تا 09
[15] کتاب نخمیاہ: باب05:آیات07 تا 09
[16] کتاب حزقی ایل: باب 18: آیات 6 تا 10
[17] کتاب حزقی ایل: باب 18: آیات10 تا 14
[18] کتاب حزقی ایل: باب 18: آیات  15 تا 18
[19] کتاب حزقی ایل: باب 22: آیات 7  تا  17
[20] انجیل متی ،۵: ۱۷
[21] کتاب لوقا کی انجیل: باب 06: آیات 35 تا 37
[22] اسرار معرفت :۲۱
[23] Encyclopedia of Religion and Ethics – Usury Page 556
[24] Dust of Increase
[25] سنن النسائي البيوع (4455) ، سنن أبو داود البيوع (3331) ، سنن ابن ماجه التجارات (2278) ، مسند أحمد بن حنبل (2/494).
[26] حرمت سود اور غیر سودی معیشت کے محرکاۃ [Book] / auth. شیرازی سید معروف شاہ. - لاہور : ادارہ منشورات اسلامی منصورہ , 1999. صفہ ۱۵
[27] Encyclopedia of Religion and Ethics – Usury Page 557
                                                                                                                                                                                          [28] Ibid 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔