اتوار، 10 مئی، 2015


اسلامی بنکاری : ایک تاریخی پس منظر

محمد اصغر شہزاد

بنک ایک ایسا ادارہ ہے جو آج کے معاشی نظام میں اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور عصر حاضر میں جبکہ دنیا گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کرچکی ہے اس ادارہ کے بغیر بڑی بڑی تجاری منڈیاں چلانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ مغربی بنکوں کے وجود میں آنے کے بعد اہل اسلام نے بھی اس میدان میں کوششیں شروع کر دیں تاکہ بنکاری نظام کو شریعت کے  اصولوں پر استوار کیا جا سکے۔ اور پوری دنیا میں روایتی اور سودی بنکوں کے مقابلے میں اسلامی بنک بنائے جائیں۔ ابتدا میں انفرادی سطح پر یہ سوچ پیدا ہوئی اور بالآخر اس نے اجتماع شکل اختیار کر لی اور ایک اسلامی بنکاری نظام عملی طور پر متعارف کرادیا گیا اس نظم کے قیام کے لئے متعدد پلیٹ فارموں پر کاوشیں کی گئیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ارتقاء:
اسلامی نظام بنکاری کوئی ساٹھ ستر دہائیوں پر محیط نظام  ہے جس کا ااغاز مصر سے ۱۹۶۳ء میں میت غمر کے اسلامک بنک کے قیام کی صورت میں ہوا تھا۔ اس سے قبل اس حوالے سے چند کاوشیں اور تجربے جنوبی ہند کی مسلم ریاست حیدر آباد میں بھی ہو چکے تھے۔ حیدرآباد دکن کے اس تجربے کے بعد ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے دورانیے میں اس طرح کی ایک ہلکی سی کاوش پاکستان میں بھی ہوئی۔ جس میں شیخ احمد رشاد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۶۹ء میں ملائیشیا میں تبونگ حاجی حجاج کا انتظامی فنڈ اور بورڈ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام حجان کرام کو مالیاتی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ بالعموم تصور پایا جاتا ہے کہ مصر کے میت غمر اور ملائیشیا کے تبونگ حاجی بورڈ اسلامی بنکاری کی عملی صورت تھی، مگر اسلامی بنکاری کے قیام کی اولین عملی اور تطبیقی صورتوں میں اگر ان دو اداروں کا جائزہ لیا  جائے تو انہیں اسلامی بنکاری کی ایک ابتدائی نامکمل صورت تو کہا جا سکتا ہے لیکن ان پر مکمل اسلامی بنک کا اطلاق کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ دونوں ادارے انتہائی محدود مقاصد کے لئے قائم کئے گئے تھے۔ میت غمر پراجیکٹ کا دائرہ عمل دہی کاشتکاروں اور ملائیشیا  کے تبونگ حاجی کے پیش نظر حاجیوں کو مالیاتی سہولت فراہم کرنا تھا، جو کہ مکمل بنکاری نہیں بلکہ بنکاری کی ابتدائی شکل تھی۔ بعد ازاں مصری حکومت نے ۱۹۷۱ ءمیں ایک بنک قائم کیا جسکا نام ناصر سوشل بنک تھا۔ یہ سرکاری بنک ہونے کی بناء پر وسائل میں میت غمر سے بہت بڑا منصوبہ تھا۔  ناصر سوشل بنک کے قیام کے کچھ سال بعد ۱۹۷۵ء میں  اسلامی ترقیاتی بنک کی قیام عمل میں لایا گیا اور بعد میں دوبئی اسلامی بنک قائم ہوا ۔ کویت  میں کویت فنانس ہاوس۱۹۷۷ء میں قائم ہوا۔ 

پاکستان میں اسلامی بنکاری کی ترویج  و ترقی

بلاشبہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس میں اسلامی قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ بات صراحت سے لکھی ہے کہ پاکستان کا کوئی قانون اسلام سے متصادم نہیں ہوگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح  ؒ  جولائی ۱۹۴۸ء نے سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر فرمایا:
’’مغربی معاشی نظریہ اور عمل کا نفاذ ہمیں ایک خوشحال معاشرہ اور قناعت پسند افراد بنانے میں کوئی مدد نہیں کرے گا۔ ہمیں ایک اسلامی معاشی نظام، جو کہ اسلامی عدل اجتماعی اور مساوات کے اصولوں کے تحت قائم ہو پر کام کرکے اپنی تقدیر خود بنانی ہوگی۔ اور دنیا کے سامنے اسے پیش کرنا ہوگا۔‘‘
پاکستان میں اسلامی بنکاری کے حوالے سے عملی کام سن ۱۹۷۹ء میں شروع ہوا ،   اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ ذمہ داری  سونپی گئی کہ وہ اسلامی معیشت کے اصولوں سے ہم آہنگ ایسا قابل عمل طریقہ کار وضع کرے جس سے سودی معاشی اور مالیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔  اسلامی نظریاتی کونسل نے ماہرین معیشت اور بنکاروں کے تعاون سے ایک عبوری رپورٹ نومبر ۱۹۷۸ اور حتمی رپورٹ فروری ۱۹۸۰ء میں مکمل کی جس میں چند ترامیم کے بعد جون ۱۹۸۰ء میں کونسل نے منظور کرلیا۔ پہلی رپورٹ میں ملک کے تین مالیاتی اداروں ، ٹیشنل انویسٹمنٹ  ٹرسٹ، آسی پی میوچل فنڈ اور ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے سود کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل دارآمد  کیا گیا۔
اپریل ۱۹۷۹ء  اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے چھ ورکنگ گروپ قائم کئے تاکہ معاملہ کا جائزہ لیا جا سکے اور معاشی نظام کو سود سے پاک کیا جا سکے۔ ان ورکنگ گروپوں نے دسمبر ۱۹۷۹ء میں اپنی رپورٹ پیش کیں، اس کے علاوہ پاکستان بنکنگ کونسل نے بلا سود نظام بنکاری کے نفاذ کے لئے  اعلٰی ٹاسک فورس قائم کی جس نے ۱۹۸۰ ء میں اپنی رپورٹ پیش کردی۔ ۱۹۸۰ء کے آخر میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے تمام تجارتی بنکوں کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ ۱۹۸۱ء سے اپنے معاملات غیر سودی بنیادوں پر قائم کرنے کے پابند ہونگے۔ا سٹیٹ بنک اس حکم نامے کے پیش نظر حکومتی تحویل میں موجود تجارتی بینکوں کی ۷۰۰  برانچوں  نےیکم جنوری ۱۹۸۱ء کو نفع و نقصان کی بنیاد پر کھاتے غیر سودی کھاتے کھولنے کی اسکیم شروع کی ۔  جون ۱۹۸۴ء کو وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ کی تقریر میں سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے  ایک  ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا۔ اس تجربے کے بعد  محسوس یہ ہوا کہ غیر سود ی بنکاری  میں سرمایہ کاری  مارک اپ کے گرد گھوم رہی تھی۔  اسلامی نظریاتی کونسل نے جو حتمی رپورٹ پیش کی اس میں مارک اپ کے علاوہ اور بھی  سرمایہ کاری کے طریقے تجویز کئے تھی لیکن ان طریقوں کی تنفیذ میں عدم دلچسپی کی وجہ سے مارک کو ہی اختیار کیا گیا جسے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء نے صرف چند عملی مشکلات کی وجہ سے وقتی طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
جون ۱۹۹۰ء میں مالی معاملات بھی شریعت کورٹ  دائرہ کار میں شامل ہوگئے  اور سود کے خلاف اپیلوں کی سماعت شروع ہو گئی۔ وفاقی شرعی عدالت نے تمام متعلقہ قوانین، تجارتی معاملات پر غور کیا اور اس کے بعد تفصیلی فیصلہ کیا کہ سود جس قسم کا بھی اور جس مقصد کے لیے بھی لیا جائے ربوٰ کے ذمرے میں آتا ہے اور اسلام کے قوانین کے مطابق مطلقاً حرام ہے۔ اس فیصلے کے رو سے حکومت پاکستان کو 30 جون 1992ء تک کا وقت دیا گیا تاکہ بنکاری نظام کو شرعی اصولوں پر استوار کرئے۔ اس کے بعد یونائیٹڈ بنک نے اپیل دائر کی جس پر سپریم کورٹ نے مجبوری کے تحت سابقہ نظام کو جاری رکھنے پر فیصلہ دیا اور 1991ء میں ایک کمیشن جس کا سربراہ سٹیٹ بنک تھا بنایا گیا جس میں ماہرین معاشیات، بنکار، ماہر قانون اور علماء کو شامل کیا گیا۔ اس کمشن کی تنظیم نو 1997ء میں کی گئی اور سینٹر راجہ ظفر الحق اس کے چئیر مین مقرر ہوئے۔  اس کمیشن نے اپنی رپورٹ اکست 1997ء میں پیش کی جس کی منظوری اور تنفیذ تاحال باقی ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نوٹ: اس بلاگ کا صرف ممبر ہی تبصرہ شائع کرسکتا ہے۔